صوبہ پنجاب کا مالی سال برائے 2022.23 کے لیے سالانہ میزانیہ بالاآخر پیش کر دیا گیا۔ ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی دوست محمد مزاری کی زیر صدارت پنجاب اسمبلی کا اجلاس ایوان اقبال میں ہوا۔
وزیر خزانہ اویس لغاری نے 32 کھرب 26 ارب روپے حجم کا بجٹ پیش کیا۔ جس میں آئندہ مالی سال کیلئے صوبے کی آمدنی کا تخمینہ 25 کھرب 21 ارب29 کروڑ روپے لگایا گیا ہے۔ جس میں آمدن کا کل تخمینہ 2521 ارب 29 کروڑ روپے لگایا گیا ہے۔
صوبے میں نئے مالی سال کا سالانہ میزانیہ برائے 2022۔23 پیش کرنے کے لیے دو اجلاس ہوئے۔ پنجاب اسمبلی کی عمارت میں ہونے والے اجلاس کی صدارت اسپیکر چوہدری پرویز الہٰی نے کی۔ ایوان اقبال میں ہونے والے دوسرے اجلاس کی صدارت ڈپٹی اسپیکر محمد مزاری نے کی۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز جب پنجاب اسمبلی میں ایوان کی کارروائی شروع نہیں کی جا سکی تھی تو گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن نے چالیسویں اجلاس کو ختم کر دیا تھا۔ جس کے بعد اُنہوں نے اکتالیسواں اجلاس بدھ کے روز دوپہر دو بجے ایوانِ اقبال میں طلب کیا۔ تاہم گورنر پنجاب کے احکامات کے باوجود بھی اسپیکر صوبائی اسمبلی نے چوہدری پرویز الٰہی نے اعلان کیا تھا کہ چالیسواں اجلاس جاری رہے گا۔
مبصرین سمجھتے ہیں کہ کچھ لوگ اپنی ذاتی انا اور تسکین کی خاطر اداروں کا مذاق بنا رہے ہیں۔ پاکستان انسٹیٹوٹ آف لیجسلیٹو ڈیولپمنٹ اینڈ ٹرانسپرینسی انٹرنیشن کے صدر احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ مستقل میں بھی ایسے اقدام ہو سکتے ہیں کیونکہ بعض اوقات کچھ لوگوں کی انا درمیان میں آ جاتی ہے اور وہ بہت دور تک چلے جاتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ آئین کے مطابق اجلاس صرف گورنر بلا سکتا ہے اور گورنر ہی اُسے برخاست کر سکتا ہے۔ گورنر پنجاب نے اپنے آئینی اختیارات کے تحت چالیسواں اجلاس برخاست کر دیا اور اکتالیسواں بلوا لیا۔ جو ایک ایک قانونی اجلاس ہے۔
اُنہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ پرویز الٰہی صاحب اِس وقت اسپیکر ہیں اور اسمبلی کی عمارت پر اُنہیں کنٹرول ہے۔ ایسے میں پاکستان تحریک انصاف بھی اُن کے ساتھ ہے۔ ایسے میں وہ اجلاس تو بلا سکتے ہیں، لیکن اُس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہو گی۔
احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ آئینی اور قانونی صورت حال واضح ہے۔
اس سے قبل پنجاب کابینہ کی منظوری کے بعد گورنر پنجاب بلیغ الرحمان نے اسپیکر پنجاب اسمبلی کے اختیارات محدود کرنے اور اجلاس بلانے کا اختیار سیکریٹری قانون کے سپرد کرنے کا آرڈیننس جاری کیا تھا۔
پنجاب حکومت کے ترجمان عطا تارڑ نے سینئر رہنما ملک احمد خان کے ہمراہ بدھ کو نیوز کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ اب ایوانِ اقبال میں بلائے گئے اجلاس میں بجٹ پیش کرنے کو آئینی اور قانونی تحفظ حاصل ہو گیا ہے۔
عطا تارڑ کا کہنا تھا کہ گورنر پنجاب نے تین آرڈیننس جاری کیے ہیں جس کے تحت پنجاب اسمبلی سیکریٹریٹ کا عملہ اب سیکریٹری قانون کے ماتحت ہو گا۔
اُن کا کہنا تھا کہ اسپیکر پنجاب اسمبلی کو لامحدود اختیارات حاصل تھے۔ آئین میں درج ہے کہ گورنر جب چاہیں کسی بھی جگہ پر اجلاس بلا سکتے ہیں۔
عطا تارڑ کا کہنا تھا کہ اب اسمبلی اجلاس بلانے کا نوٹی فکیشن جاری کرنے کا اختیار سیکریٹری اسمبلی کے بجائے سیکریٹری قانون کے پاس ہو گا۔
تحریکِ انصاف کے سینئر رہنما فواد چوہدری نے پنجاب حکومت کے اس فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ایسا کبھی مارشل دور میں بھی نہیں ہوا کہ اسمبلی کو انتظامیہ کے ماتحت کر دیا گیا ہو۔
خیال رہے کہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں آئندہ مالی سال کے بجٹ سے متعلق اسمبلی کے دو الگ الگ اجلاس بلائے گئے ۔ ایک اجلاس حکومت اور اتحادی جماعتوں کی طرف سے جب کہ دوسرا حزبِ اختلاف اور اُن کی ہم خیال جماعتوں نے طلب کیا ۔
ایسا پہلی مرتبہ ہوا کہ پنجاب کے بجٹ کے لیے دو بجٹ اجلاس ایک ساتھ بدھ کو ہوئے۔ بیک وقت دو مختلف مقامات پر بجٹ اجلاس بلانے پر اسمبلی اسٹاف بھی کشمکش کا شکار ہا کہ اُنہوں نے اپنے سرکاری فرائض کی انجام دہی کے لیے کہاں جانا ہے۔
اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہیٰ کی زیرِ صدارت اجلاس میں حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتیں پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان مسلم (ق) شریک ہوئیں اور یہ اجلاس اسمبلی ہال میں ہو ا۔ جب کہ دوسرا اجلاس ایوانِ اقبال میں ہو ا جس کی صدارت ڈپٹی اسپیکر سردار دوست محمد مزاری نے کی۔
پنجاب حکومت گزشتہ دو روز سے اسمبلی میں آئندہ مالی سال کا بجٹ پیش نہیں کر سکی تھی۔ جس کے بعد گورنر پنجاب محمد بلیغ الرحمٰن نے بجٹ اجلاس ایوانِ اقبال میں طلب کیا ۔ تاہم اسپیکر چوہدری پرویز الٰہی نے گورنر پنجاب کا طلب کردہ اسمبلی اجلاس غیر قانونی قرار دیا ۔
SEE ALSO: پنجاب اسمبلی میں بجٹ پیش نہ ہو سکا، گورنر نے اجلاس ایوان اقبال میں طلب کر لیامنگل کو آٹھ گھنٹے تاخیر کے باوجود پنجاب اسمبلی میں بجٹ اجلاس کی کارروائی شروع نہیں ہو سکی تھی۔ حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان اب تک ڈیڈ لاک برقرار ہے۔
ذرائع پنجاب اسمبلی بناتے ہیں کہ اسپیکر پرویز الٰہی اجلاس میں آئی جی پنجاب پولیس اور چیف سیکریٹری کو بلانا چاہتے ہیں تاکہ ان سے گزشتہ ماہ تحریکِ انصاف کے لانگ مارچ کو روکنے کی وضاحت مانگی جا سکے۔
'حکومت اپوزیشن کی شرط ماننے کو تیار نہیں'
اِسی طرح حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں نے شرط عائد کی ہے کہ ان کے بعض رہنماؤں پر قائم کردہ مقدمات ختم کیے جائیں۔ تاہم صوبے میں برسرِ اقتدار جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کا مؤقف ہے کہ آئی جی پنجاب اور چیف سیکریٹری کو اس طرح اسمبلی اجلاس میں نہیں بلایا جا سکتا ۔انہیں طلب کرنے کے باقاعدہ طریقۂ کار موجود ہے۔
مسلم لیگ (ن) کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسمبلی قواعد کے مطابق بجٹ اجلاس میں کسی اور موضوع پر بات نہیں کی جا سکتی۔
ذرائع پنجاب اسمبلی کا کہنا ہے کہ حکومت نے پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی کے خلاف درج مقدمات واپس لینے پر کچھ لچک دکھائی تھی لیکن وہ آئی جی اور چیف سیکریٹری کی اسمبلی میں طلبی کی شرط ماننے کو تیار نہیں۔
پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما اسد عمر کہتے ہیں کہ ملک کے سب سے بڑے صوبے میں کیا تماشہ لگا رکھا ہے کہ نجی ہوٹل میں وزیرِ اعلیٰ کا انتخاب ہوا اور اب ایوانِ اقبال میں بجٹ اجلاس۔
واضح رہے کہ وزیرِ اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کا انتخاب بھی تنازع کا شکار ہوا تھا اور تاریخ میں پہلی مرتبہ عدالتی حکم پر اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے حمزہ شہباز سے وزارتِ اعلیٰ کا حلف لیا تھا۔
پنجاب اسمبلی میں ہنگامہ آرائی کے بعد آٹھ گھنٹے کی تاخیر سے منگل کی شام ایوان کی کارروائی کا دوبارہ آغاز ہوا تو اسپیکر پرویز الٰہی نے سردار اویس لغاری سے بجٹ پیش کرنے کے لیے کہا۔ جس پر اُنہوں نے اسپیکر سے کہا کہ گورنر اجلاس ملتوی کر چکے ہیں اور اب بجٹ کی کارروائی شروع کرنا غیر قانونی ہو گا۔
اس موقع پر اسپیکر کا کہنا تھا کہ گورنر کے فیصلے کی کوئی قانونی اہمیت نہیں اور وہ بجٹ پیش کریں۔اویس لغاری کی جانب سے بجٹ پیش نہ کیے جانے پر پرویز الٰہی نے اسمبلی اجلاس بدھ تک کو دوپہر ایک بجے تک ملتوی کر دیا تھا۔
صوبائی وزیر عطاءاللہ تارڑ کہتے ہیں کہ قواعد کے مطابق گورنر کسی بھی وقت کسی بھی جگہ جسے وہ مناسب سمجھیں اجلاس طلب کر سکتے ہیں۔ اِسی طرح وہ اجلاس برخاست بھی کر سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ گر اپرویز الٰہی ایوان اقبال آئیں اور اجلاس کی صدارت کریں تو اُنہیں عزت دی جائے گی اور کوئی آئینی و قانونی معاملہ پیدا نہیں ہو گا۔