|
رائٹرز کی ایک خصوصی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یورپی صارفین بھارتی اسلحہ سازوں کی طرف سے فروخت شدہ توپوں کے گولے یوکرین کو منتقل کر تے رہے ہیں اور نئی دہلی نے ماسکو کے احتجاج کے باوجود اس تجارت کو روکنے کے لیے مداخلت نہیں کی ہے۔ ماسکو نے اس مسئلے کو کم از کم دو مواقع پر بھارت کے ساتھ اٹھایا ہے۔
بھارتی، یورپی حکومتوں کے عہدہ داروں، اور دفاعی انڈسٹری کے گیارہ عہدے داروں نے معاملے کی حساسیت کی وجہ سے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر رائٹرز سے بات کی ہے۔ اس کے علاوہ رائٹرز نے اس تجزیے کی تیاری مں کمرشل طور پر دستیاب کسٹم کے ڈیٹا کو استعمال کیا ہے۔
ایک بھارتی عہدے دار نے کہا کہ نئی دہلی صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ لیکن انکا اور منتقلی کا براہ راست علم رکھنے والے دفاعی صنعت کے ایک ایگزیکٹیو کا کہنا تھا کہ بھارت نے یورپ کو ترسیل روکنے کے لیے کوئی کارروائی نہیں کی ہے۔
کسٹم ریکارڈ
رائٹرز کے مطابق تجارتی طور پر دستیاب کسٹم ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ یوکرین پر روس کے فروری 2022 کے حملے سے قبل کے دو برسوں میں، بھارتی گولہ بارود بنانے والی تین بڑی بھارتی کمپنیوں، "ینترا"، "میونیشنز انڈیا" اور "کلیانی اسٹریٹجک سسٹمز" نے صرف 2.8 ملین ڈالر کے گولہ بارود کے اجزاء ،اٹلی، چیک ریپبلک، اسپین اورسلووینیا برآمد کیے تھے۔ جہاں ڈیفینس کانٹریکٹرز نے یوکرین کے لیے سپلائی چین میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ہے۔
ڈیٹا سے ظاہر ہوتا ہے کہ فروری 2022 اور جولائی 2024 کے درمیان، اعداد و شمار 135.25 ملین ڈالر تک بڑھ گئے جن میں وہ جنگی سازوسامان بھی شامل ہے جسے بھارت نے ان چارملکوں کو برآمد کرنا شروع کیا تھا۔
یوکرین، اطالوی، ہسپانوی اور چیک وزارت دفاع نے تبصرہ کرنے کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔
روس اور بھارت کے خارجہ اور دفاع کے محکموں کا رد عمل
روس اور بھارت کی وزارت خارجہ اور دفاع نے اس بارے میں رائٹرز کے سوالات کا جواب نہیں دیا۔ جنوری میں، بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے ایک نیوز کانفرنس میں کہا تھا کہ بھارت نے یوکرین کو توپوں کے گولے نہ تو بھیجے ہیں اور نہ ہی فروخت کیے ہیں۔
بھارتی حکومت اور دفاعی صنعت کے دو، دو ذرائع نے رائٹرز کو بتایا کہ نئی دہلی نے یوکرین کی طرف سے استعمال ہونے والے گولہ بارود کی بہت ہی کم تعداد تیار کی ہے۔
ایک اہلکار کا اندازہ تھا کہ کیف نے جنگ کے بعد کل جتنے بھی ہتھیار درآمد کیے ہیں یہ تعداد ان کے ایک فیصد سے کم تھی ۔ خبر رساں ایجنسی یہ تعین نہیں کر سکی کہ آیا یہ گولہ بارود دوبارہ فروخت کیا گیا تھا یا یورپی صارفین نے کیف کو عطیہ کیا تھا۔
SEE ALSO: کواڈ اجلاس میں مودی کی شرکت: کیا یوکرین تنازع پر بھی گفتگو ہو گی؟وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے 30 اگست کو ایک کانفرنس میں کہا کہ گزشتہ مالی سال میں دفاعی برآمدات 2.5 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئی تھیں اور بھارت اسے 2029 تک لگ بھگ 6 ارب ڈالر تک بڑھانا چاہتا ہے۔
اسٹینفرڈ یونیورسٹی میں بھارتی دفاعی امور کے ایک ماہر ارزان تاراپور نے کہا کہ نئی دہلی کی طرف سے یوکرین کو ہتھیاروں کی منتقلیک ی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ ہتھیاروں کی برآمدات میں توسیع چاہتا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ممکن ہے اچانک ہونے والی توسیع میں، خلاف ورزیوں کے کچھ ایسے واقعات پیش آگئے ہوں جن میں اسلحہ آخر کار غیر مجاز ہاتھوں تک پہنچ گیا ہو ۔
تین بھارتی عہدیداروں نے بتایا کہ ماسکو نے اس مسئلے کوروسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف اور ان کے بھارتی ہم منصب کے درمیان جولائی میں ہونے والی ملاقات سمیت کم از کم دو مواقع پر اٹھایا ہے۔
بھارت میں اسلحے کی منتقلی کے ضابطے
اسلحے کی برآمد کے بھارتی ضابطے کے تحت فروخت کیے گئے ہتھیاروں کا استعمال صرف ان کا خریدار ہی کر سکتا ہے جس کی غیر مجاز منتقلی کی صورت میں مستقبل میں ہتھیاروں کی فروخت کے ختم کیے جانے کا خطرہ ہوتا ہے ۔
ذرائع اور کسٹمز ڈیٹا کے مطابق، روس کے خلاف یوکرین کے دفاع میں مدد کے لیے جنگی سازوسامان کی منتقلی ایک سال سے زائد عرصے سے ہوئی ہے۔
گولہ بارود کی منتقلی کی تفصیلات پہلی بار رائٹرز نے بتائی ہیں۔
محتاط ترسیلات
اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے تھنک ٹینک کے مرتب کردہ اعداد و شمار کے مطابق، بھارت نے 2018 اور 2023 کے درمیان صرف 3 ارب ڈالر سے کچھ ہی زیادہ کا اسلحہ برآمد کیاتھا۔
بھارتی ساختہ توپوں کے گولوں کے خول
اٹلی کی ایک دفاعی کانٹریکٹ کمپنی ایم ای ایس یا Meccanica per l'Elettronica e Servomeccanismi جس کا نام مجاز فہرست میں درج نہیں تھا بھارت کے تیار کردہ گولے یوکرین کو بھیجنے والی کمپنیوں میں شامل تھی، ایم ای ایس، انڈیا کی گولہ بارود بنانے والی کمپنی ’ینترا‘ کا سب سے بڑا غیر ملکی کلائنٹ ہے۔
ایگزیکٹیو نے بتایا کہ روم میں قائم یہ کمپنی بھارت سے گولوں کے خول خریدتی ہے اور انہیں دھماکہ خیز مواد سے بھرتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ بہت سی مغربی کمپنیوں کے پاس گولوں میں دھماکہ خیز مواد بھرنے کی صلاحیت موجود ہے لیکن وہ بڑے پیمانے پر گولوں کے خول تیار کرنے کی اہلیت نہیں رکھتیں۔
’ینترا‘ نے اپنی 2022-23 کی رپورٹ میں کہا کہ اس نے ایک نامعلوم اطالوی کمپنی کے ساتھ ،جسے انہوں نے ’ایم ای ایس‘ کے طور پر شناخت کیا ، L15A1 خول تیار کرنے کا معاہدہ کیا تھا ۔
’ایم ای ایس‘ اور ’ینترا انڈیا‘ نے تبصرہ کرنے کی رائٹرز کی ای میلز کا جواب نہیں دیا۔
کسٹمز ڈیٹا سے ظاہر ہوا کہ ’ینترا انڈیا‘ نے فروری 2022 اور جولائی 2024 کے درمیان 155ایم ایم L15A1 کے 35 ملین ڈالر کی مالیت کے خالی گولے اٹلی کے ڈیفینس کنٹریکٹر ایم ای ایس کو روانہ کئے تھے ۔
کسٹمز کے ریکارڈ سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ فروری 2024 میں یو کے میں قائم اسلحہ ساز کمپنی ڈینس ہل نے، جس کے بورڈ میں ایم ای ایس کے اعلی ایکزیکٹیو شامل تھے، 6.7 ملین ڈالر کی مالیت کا اسلحہ اٹلی سے یوکرین کو بر آمد کیاگیا.
SEE ALSO: مودی کا صدر بائیڈن سے ٹیلی فونک رابطہ؛ 'بھارت اب یوکرین جنگ میں غیر فعال نہیں رہے گا'برآمدات میں 155ایم ایم L15A1 کے خول شامل تھے جن کے بارے میں کسٹمز کی دستاویزات میں کہا گیا تھا کہ انہیں ایم ای ایس نے یوکرین کی وزارت دفاع کے لیے تیار کیا تھا اور یوکرین کے دفاع اور موبلائیزیشن کے لیے مستعد رہنے کی صلاحیت میں اضافے کے لیے سپلائی کیا تھا۔
ڈنس ہل نے تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔ روم میں قائم اس کی نئی مالک کمپنی ، "ایفےکواٹرو کنسلٹنگ" تک رسائی ممکن نہیں ہو سکی۔
ایک اور واقعے میں اسپین کے ٹرانسپورٹ منسٹر آسکر پونیٹ نے مئی میں سوشل میڈیا پر ایک معاہدے کو شئیر کیا جس پر ایک چیک ڈیفینس عہدے دار کے دستخط تھے جس میں 120 ایم اور 125 ایم ایم کے اسلحے کے خولوں کو ’میونیشنز انڈیا‘ سے اسلحے کے ڈیلر ، چیک ڈیفنس سسٹمز کو منتقلی کا اختیار دیا گیا تھا۔
بھارتی ساختہ اسلحہ اسرائیل لے جانے والا بحری جہاز
فلسطینی نواز سر گرم کارکنوں نے الزام عائد کیا تھا کہ بھارتی ساختہ ہتھیار لے جانے والا ایک بحری جہاز "بورکم" جسے اسپین کے ساحل پر روکا گیا تھا ، ہتھیاروں کو اسرائیل لے جارہا تھا۔ ہسپانوی اخبار ایل منڈو نے مئی میں خبر دی کہ اس کی حتمی منزل اصل میں یوکرین تھی۔
اسپین کے ایک عہدے دار اور معاملے سے واقف ایک اور ذریعے نے رائٹرز سے تصدیق کی کہ اس ترسیل آخری صارف کیف تھا۔ میونیشنز انڈیا اور سی ڈی ایس نے سوالات کے جواب نہیں دیے ۔
27 مارچ کے کسٹمز ریکارڈ سے ظاہر ہوا کہ میونیشنزانڈیا نے 9 ملین ڈالر سے زیادہ کی مالیت کے 120 ایم ایم اور 125 ایم ایم کے 10 ہزار گولے چنائی سے سی ڈی ایس کو بھیجے تھے۔
Your browser doesn’t support HTML5
یوکرین سیکیورٹی کے اہم مدد گار نئی دہلی اور واشنگٹن
رائٹرز کا کہنا ہے کہ یوکرین کے سیکیورٹی کے اہم مدد گار دہلی اور واشنگٹن نے حال ہی میں چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کے پس منظر میں دفاعی اور سفارتی تعاون کو مضبوط کیا ہے، جسے دونوں اپنا اہم حریف سمجھتے ہیں۔
بھارت کے روس کے ساتھ بھی گرمجوشی پر مبنی تعلقات ہیں، جو کئی دہائیوں سے اس کے بنیادی ہتھیاروں کا سپلائر ہے ، وزیر اعظم نریندر مودی نے ماسکو کے خلاف پابندیاں عائد کرنے والی مغربی قیادت کی حکومتوں کے ساتھ شامل ہونے سے انکار کر دیا ہے۔
لیکن سرکاری سوچ سے واقف چھ بھارتی ذرائع کے مطابق دہلی، جو دنیا کا سب سے بڑا ہتھیار درآمد کرنے والا ملک ہے، یورپ میں طویل جنگ کو ہتھیاروں کی برآمد کے اپنے ابھرتے ہوئے سیکٹرکو ترقی دینے کے ایک موقع کے طور پر بھی دیکھتا ہے۔
یوکرین، جو پوکروسک کے مشرقی لاجسٹک مرکز کی طرف روسی حملے پر قابو پانے کے لیے لڑ رہا ہے، اس کے پاس توپ خانے کے گولہ بارود کی شدید کمی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
رائٹرز کے مطابق وائٹ ہاؤس نے اس پر کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا اور امریکی محکمہ خارجہ نے نئی دہلی کی جانب سے یوکرین کو برآمدات کے سوالات کو بھارتی حکومت کو ریفر کر دیا ۔
کنگز کالج لندن میں جنوبی ایشیا کی سیکیورٹی کے امور کے ایک ماہر والٹر لیڈونگ نے کہا ہے کہ نسبتاً کم مقدار میں اسلحے کی منتقلی جیو پولیٹیکل اعتبار سے نئی دہلی کے لیے فائدہ مند ہے ۔
ان کا کہنا ہے اس سے بھارت کو اپنے مغربی پارٹنرز کو یہ دکھانے کا موقع ملتا ہے کہ وہ روس کی طرفداری نہیں کر رہا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ماسکو کا دہلی کے فیصلوں پر بہت کم اثر و رسوخ ہے ۔
ایک ہسپانوی اور ایک سینئر بھارتی اہلکار کے ساتھ ساتھ ، یوکرین جس سرکاری کمپنی، ینترا انڈیا کا گولہ بارود یوکرین استعمال کر رہا ہے، اس کے ایک سابق اعلیٰ ایگزیکٹو کے مطابق،یوکرین کو جنگی سازوسامان بھیجنے والے یورپی ممالک میں اٹلی اور جمہوریہ چیک شامل ہیں جو یوکرین کو یورپی یونین کے باہر سے توپ خانے کے گولے فراہم کرنے کے ایک پراجیکٹ کی قیادت کررہا ہے ۔
رائٹرز کی طرف سے انٹرویو کیے گئے 20 افراد میں سے بیشتر کی طرح،ان دونوں نے معاملے کی حساسیت کی وجہ سے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کی۔
اس رپورٹ کا مواد رائٹرز سے لیا گیا ہے۔