روس کی یوکرین کے خلاف جارحیت اور کیف کو اپنی قومی خود مختاری اور سلامتی کا دفاع کرتے ہوئے نصف برس گزر گیا ہے۔
یوکرین کے صدر ولودمیر زیلنسکی نے ہفتے کو خطاب میں کہا کہ ’’مجھے یاد ہے کہ مختلف مشیروں نے مجھ سے کیا کہا تھا اور کیا مشورہ دیا۔ میں جانتا ہوں کہ ان میں سے بہت سے اب اپنے ان الفاظ پر شرمندہ ہوں گے، جو اس وقت کہے گئے تھے۔ یوکرین کے شہریوں نے ثابت کیا ہے کہ وہ ناقابلِ تسخیر ہیں۔ ہمارے محافظ محاذ پر ڈٹے ہوئے ہیں۔‘‘
زیلنسکی نے مزید کہا کہ ’’ہمیں اب بھی لڑنا پڑے گا۔ ہمیں ابھی بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے، ہمیں اب بھی ثابت قدم رہنے اور برداشت کرنے کی ضرورت ہے، بدقسمتی سے ہم نے بہت تکالیف جھیلیں۔ یوکرین کے شہری اپنے آپ پر، اپنے ملک اور اپنے ہیروز پر فخر محسوس کر سکتے ہیں۔"
ماسکو کی جارح افواج کے حوالے سے ان کا مزید کہنا تھا کہ یوکرین کے شہریوں کو آگاہ رہنا چاہیے کہ روس کوئی اور نامناسب اور ظالمانہ اقدام کرنے کی کوشش کر سکتا ہے۔ وہ ہمارا دشمن ہے۔گزشتہ چھ ماہ کے دوران ہر ہفتے دو ہفتے کے دوران روس نفرت انگیز اور ظالمانہ کام کارروائی کرتا رہا ہے۔
دوسری جانب روس کے حکام نےکہا ہے کہ ان کی فضائیہ نے ہفتے کو کرایمیا میں ایک ڈرون مار گرایا ہے۔ اس کے بحیرہ اسود کے بحری بیڑے کے ہیڈ کوارٹر میں تین ہفتوں میں یہ اس نوعیت کا دوسرا واقعہ تھا۔
سیواستوپول کے گورنر میخائل رزووزویف نے کہا کہ جو ڈرون گرایا گیا ہے وہ روسی بحری بیڑے کے ہیڈ کوارٹر کی چھت پر گرا لیکن اس سے کوئی نقصان نہیں ہوا۔
Your browser doesn’t support HTML5
علاقے کے گورنرنے ہفتے کی رات ٹیلیگرام پر ایک نیا بیان جاری کیا جس میں یہاں کے مکینوں سے کہا گیا کہ وہ علاقے کے طیارہ شکن نظام کی تصاویر اور اس کے کام کرنے کے طریقے کی فلم بندی نہ کریں۔
بعض رپورٹس کے مطابق یہ واقعہ کرایمیا میں روسی افواج کی کمزوری کو واضح کرتا ہے۔
رواں ماہ کے آغاز میں روس کے ایک فضائی اڈے پر ہونے والے دھماکوں میں نو روسی جنگی طیارے تباہ ہوئے تھے جب کہ رواں ہفتے کے آغاز میں کرایمیا میں ایک روسی گولہ بارود کا ڈپو دھماکوں کی زد میں آ یا تھا۔
خیبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریسٰ کی رپورٹ کے مطابق 31 جولائی کو بحیرہ اسود کے ہیڈ کوارٹر پر ڈرون حملے میں پانچ افراد زخمی ہوئے تھے۔
ان واقعات کے بعد روس اپنے یومِ بحریہ کی تقریبات منسوخ کرنے پر مجبور ہوا تھا۔
ٹفٹس یونیورسٹی میں بین الاقوامی تاریخ کے پروفیسر کرسٹوفر ملر نے اخبار ’نیویارک ٹائمز‘ کو بتایا تھا کہ یوکرین روسی لاجسٹکس اور سپلائی لائنوں میں خلل ڈالنے کی کوشش کر سکتا ہے اور جنگ کو روس کے داخلی سیاسی ایجنڈے پر واپس لاسکتا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
جوہری تنصیبات کو خطرات
زیپوری زیزہیا نیوکلیئر پاور پلانٹ کے ارد گرد کئی ہفتوں سے گولہ باری نے خدشات بڑھا دیے ہیں۔ہفتے کو یوکرین کے دوسرے سب سے بڑے پیوڈیننو کرینسک جوہری پاور پلانٹ سے تقریباً 30 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایک قصبے کو روس نے میزائل سے نشانہ بنایا۔
ابھی تک پلانٹ کو کسی قسم کا نقصان پہنچنے کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔ خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق روس نے اس حوالے پر فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
یوکرین نے اقوامِ متحدہ اور دیگر بین الاقوامی اداروں سے کہا ہے کہ وہ روس کو جوہری پلانٹ چھوڑنے پر مجبور کریں، جس پر اس نے مارچ سے قبضہ کیا ہوا ہے۔
بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کی جانب سے پلانٹ کے دورے کے انتظامات کے لیے ایک ہفتے سے زائد عرصے سے بات چیت جاری ہے۔
جمعے کو روس کے صدر ولادیمیر پوٹن نے فرانسیسی صدر ایمانوئل میخواں سے ٹیلی فون پر گفتگو کی تھی جس میں پوٹن نے بتایا تھا کہ روس بین الاقوامی معائنہ کاروں کو جوہری پلانٹ کا دورہ کرنے کی اجازت دینے کے لیے تیار ہے۔
آئی اے ای اے کے سربراہ رافیل گروسی نے حالیہ بیانات کا خیرمقدم کیا، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یوکرین اور روس دونوں نے پلانٹ میں مشن بھیجنے کے مقصد کی حمایت کی ہے۔
یورپ میں یہ تشویش بڑھ رہی ہے کہ ایٹمی پلانٹ کے ارد گرد گولہ باری کے نتیجے میں 1986 کے چرنوبل ایٹمی تباہی سے بھی بدتر تباہی ہو سکتی ہے۔
اس رپورٹ میں مواد خبر رساں اداروں ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ اور ’رائٹرز‘ سے لیا گیا ہے۔