عمر کوٹ _ پاکستان کے صوبے سندھ کے ایک گاؤں جھائنرو میں 71 سالہ رہائشی صالح محمد کے گھر تعزیت کا سلسلہ جاری ہے۔ لوگ دور دور سے ان کے پاس بیٹے کی موت پر تعزیت کے لیے آ رہے ہیں۔
صالح محمد کے 40 سالہ بیٹے ڈاکٹر شاہ نواز کو رواں ماہ ہی توہینِ مذہب کیس میں گرفتار کیے جانے کے بعد پولیس حراست میں قتل کر دیا گیا تھا۔
ابتدا میں پولیس کا دعویٰ تھا کہ ڈاکٹر شاہ نواز پولیس مقابلے میں اپنے ایک ساتھی کی فائرنگ سے مارے گئے ہیں لیکن واقعے کی تحقیقات کے بعد انکوائری کمیٹی نے کہا ہے کہ شاہنواز کو پولیس نے قتل کیا اور اس واقعے کو چھپانے کی کوشش کی۔
صالح محمد یا ان کے خاندان نے اب تک ڈاکٹر شاہ نواز کے قتل کا مقدمہ درج نہیں کرایا ہے۔ البتہ صوبائی وزیرِ داخلہ ضیاء الحسن لنجار کے مطابق اگر ورثا مقدمہ درج نہیں کرائیں گے تو پھر سرکار کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا جائے گا۔
حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ واقعے کی ایف آئی آر سینئر پولیس افسران کے خلاف درج کی جائے گی۔
واقعہ کب اور کیسے پیش آیا؟
پولیس کو 17 ستمبر کو رپورٹ موصول ہوئی کہ ضلع عمر کوٹ میں تعینات 18 گریڈ کے سینئر ڈاکٹر شاہ نواز کنبھر نے سوشل میڈیا پر کوئی قابلِ اعتراض پوسٹ شیئر کی ہے۔
اس اطلاع کے بعد شہر میں بڑی تعداد میں لوگ اکھٹے ہوگئے اور احتجاج کے ساتھ ہنگامہ آرائی بھی شروع ہو گئی۔مشتعل مظاہرین نے اس دوران پولیس موبائل کو نذرِ آتش کیا اور دیگر گاڑیوں کو بھی نقصان پہنچایا۔
حالات کی سنگینی کے پیش نظر پولیس نے اسی رات ڈاکٹر شاہ نواز کے خلاف ایف آئی آر درج کی اور مشتعل مظاہرین کی ہنگامہ آرائی پر ایک اور ایف آئی آر کا اندراج کیا گیا۔
SEE ALSO: توہینِ مذہب کے ملزم ڈاکٹر کو جعلی پولیس مقابلے میں مارا گیا: سندھ حکومت کا اعترافہجوم نے پولیس کو مبینہ ملزم کی گرفتاری کے لیے 48 گھنٹے کا الٹی میٹم دیا اور پھر 18 ستمبر کی سہ پہر پولیس کی ایک ٹیم نے ڈاکٹر شاہ نواز کو کراچی کے علاقے لیاری سے حراست میں لے کر عمر کوٹ کے بجائے میر پور خاص منتقل کر دیا۔
تقریباً رات دو بجے ڈاکٹر شاہ نواز کو پولیس نے ڈرامائی پولیس مقابلے میں قتل کردیا اور اس کے قبضے سے ایک فون، شناختی کارڈ اور ایک ہزار روپے برآمد کرنے کا دعویٰ کیا۔
'پولیس نے کہا بری خبر سننے کو تیار ہوجاؤ'
صالح محمد اپنے بیٹے کے قتل سے لاعلم تھے جنہیں پولیس نے اہلِ خانہ اور بھائیوں سمیت پہلے ہی تحویل میں لے رکھا تھا۔
صالح محمد نے بتایا کہ پولیس اہلکاروں نے انہیں یہ کہتے ہوئے اپنے ساتھ چلنے کو کہا کہ ایک بری خبر کے لیے تیار ہو جاؤ۔ جب انہیں سول اسپتال پہنچایا گیا تو ان کے سامنے جوان سال بیٹے کی لاش پڑی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ وہ پولیس کی موجودگی میں ایمبولینس میں لاش لے کر گاؤں آرہے تھے کہ مشتعل ہجوم نے ایمبولینس کو گاؤں میں داخل ہونے سے روک دیا۔ جس کے بعد لاش کو ایمبولینس سے نکال کر پرائیویٹ گاڑی میں منتقل کیا اور اس میں ٹانگیں گاڑی کی کھڑکی سے باہر آرہی تھیں۔
صالح محمد اپنے بیٹے کی لاش کو اپنے خاندانی قبرستان لے جا رہے تھے۔ لیکن وہاں بھی ایک مشتعل ہجوم اکھٹا ہوگیا، جس نے خاندان اور پولیس کی موجودگی میں لاش گاڑی سے نکالی اور ان کے سامنے اُسے آگ لگا دی۔
صالح محمد کے مطابق انہوں نے اپنے بچوں کے ہمراہ بے بسی میں وہ جلی ہوئی لاش اٹھا کر ایک اور مقام پر منتقل کی اور وہاں تدفین کی۔ انہوں نے کہا، کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ میں اپنے بیٹے کی لاش یوں اٹھاتے پھروں گا۔
SEE ALSO: سندھ: توہینِ مذہب کا ملزم مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاک، تحقیقات کا مطالبہصالح محمد اپنے بیٹے کی موت کا ذمہ دار مقامی پولیس عہدیداروں کو قرار دیتے ہوئے اور قاتلوں کو قانون کے مطابق سزا دینے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
باہمت دکھائی دینے والے صالح محمد کے مطابق ان کی ہمت اس وقت جواب دے گئی تھی جب وہ واقعے کے کچھ روز بعد اپنے پوتے کو چیز دلانے گئے تو اس نے پوچھا کہ دادا میرے بابا چلے گئے ہیں؟
صالح محمد نے کہا کہ ان کے پاس پوتے کی اس بات کا کوئی جواب نہ تھا۔
جھائنرو گوٹھ میں واقعے کے بعد ہو کا عالم ہے اور لوگ اس واقعے کے بارے میں بات کرنے میں خوف محسوس کرتے نظر آتے ہیں۔
عمر کوٹ تعلقہ میں بڑی تعداد میں ہندو بھی مقیم ہیں اور شہر میں ہندو مت کے ماننے والوں کی تعداد مسلمانوں سے زیادہ ہے۔ لیکن عمر کوٹ کے رہائشی نجیب بلبانی کا کہنا ہے کہ علاقے میں کبھی کوئی ایسا واقعہ نہیں ہوا اور یہ سندھ کے ان علاقوں میں شمار ہوتا ہے جہاں مذہبی رواداری کی مثالیں دی جاتی ہیں۔
نجیب کے مطابق ڈاکٹر شاہ نواز کے قتل کے بعد مسلمانوں سے زیادہ ہندوؤں میں خوف پایا جاتا ہے۔ وہ اس بارے میں پہلے اس قدر محتاط نہیں تھے لیکن اب انہیں ایسے معاملات میں حد درجہ احتیاط کرنا پڑ رہی ہے۔
عمر کوٹ میں بڑا احتجاج
جھائنرو گوٹھ کے برعکس ہمیں وہاں سے محض پندرہ کلو میٹر دور شہر میں خوف کا ماحول بالکل نظر نہیں آیا۔
بدھ کے روز سیکڑوں افراد نے شہر کے مرکزی چوک پر جمع ہوکر احتجاجی مظاہرہ کیا اور واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔ مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ واقعے میں ملوث پولیس افسران اور اہلکاروں کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جائے اور ہجوم میں شامل ان مذہبی گروہوں کے پیشواؤں کو بھی سزا دی جائے جنہوں نے لوگوں کو اس پر اکسایا۔
انسانی حقوق کے کارکن اور سوشل ایکٹوسٹ سندھو نواز گھانگرو نے الزام عائد کیا کہ مذہبی انتہا پسند گروہوں کو پولیس اور دیگر ریاستی عناصر کی کھلم کھلا حمایت حاصل ہے۔
نواز گھانگرو نے کہا کہ سندھ صوفیا کرام کی سرزمین ہے جہاں مذہبی رواداری اور مختلف مذاہب کے لوگ مل کر رہتے آئے ہیں۔ لیکن ہم اس صوبے میں کسی صورت مذہب کے نام پر قتل و غارت گری اور فساد کی اجازت نہیں دے سکتے۔
ایک اور کارکن عالیہ بخشل کہتی ہیں اگرچہ ملک بھر ہی کے مختلف علاقوں میں مذہب کی توہین اور ماورائے عدالت قتل کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں لیکن اس انتہا پسندی کے خلاف سندھ ہی میں مزاحمت دکھائی دیتی ہے جس کی وجہ یہاں کی صدیوں پر محیط ثقافت ہے۔
عالیہ کے مطابق سندھ میں امن، محبت، بھائی چارہ اور ایک دوسرے کے مذہبی جذبات کا احترام کیا جاتا ہے۔ اگرچہ ان روایات پر بڑے تابڑ توڑ حملے ہو رہے ہیں لیکن اس کے خلاف شدید مزاحمت بھی پائی جاتی ہے۔
پولیس انکوائری رپورٹ میں کیا نکلا؟
ڈاکٹر شاہنواز کے قتل میں پولیس کے کردار پر سندھ پولیس کی انکوائری رپورٹ منظر عام آگئی ہے جس میں یہ قرار دیا گیا ہے کہ پولیس نے جعلی مقابلے میں ڈاکٹر شاہ نواز کو قتل کیا اور پھر اسے قانونی رنگ دینے کی کوشش کی۔
انکوائری کمیٹی نے اپنی سفارشات میں کہا ہے کہ مقتول ڈاکٹر شاہ نواز کے خاندان کو بیان ریکارڈ کرانے اور مقدمے کا اندراج کرانے دیا جائے۔ سابق ڈی آئی جی میرپور خاص جاوید جسکانی اور ایس ایس پی چوہدری اسد کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے۔
انکوائری کمیٹی نے سفارش کی ہے کہ جس طرح پولیس مقابلے کو پیش کیا گیا اور اس پر مختلف علما کی جانب سے ڈی آئی جی اور ایس ایس پی کو پھولوں کے ہار پہنائے گئے اور خوشیاں منائی گئیں، اس پر ان افسران کے خلاف سخت ترین محکمہ جاتی کارروائی بنتی ہے۔
صوبائی وزیرِ داخلہ ضیاء الحسن لنجار نے کے مطابق مقدمے کے اندراج میں کسی قسم کی تاخیر کو خارج از امکان سمجھا جائے کوئی کتنا ہی بااثر یا بڑا افسر کیوں نہ ہو اسے قانون کے دائرے میں لائیں گے۔