اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے خوراک (ڈبلیو ایف پی) کی جانب سے خشک سالی کا شکار قرنِ افریقہ میں فضائی راستے سے امدادی سامان پہنچانے کے مشن کا آغازبدھ سے کیا جارہا ہے۔
ادارے کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر جوزٹ شیران کے مطابق غذائی اشیاء سے لدے امدادی طیارے بدھ کی صبح صومالیہ کے دارالحکومت موغادیشو پہنچیں گے جبکہ صومالی سرحدوں سے ملحق مشرقی ایتھوپیا اور شمالی کینیا کی جانب بھی کئی امدادی طیارے روانہ کیے جارہے ہیں۔
جوزٹ شیران کا کہنا ہے کہ ان کا ادارہ خطے کے بحران سے نمٹنے کے لیے دنیا کے دیگر حصوں میں موجود اپنے وسائل اور عملے کو بھی استعمال میں لارہا ہے۔
خطے میں امدادی سرگرمیوں کے لیے فنڈز کے حصول کی غرض سے ایک عالمی ڈونرز کانفرنس بھی بدھ کو کینیا کے دارالحکومت نیروبی میں ہورہی ہے جہاں 'ڈبلیو ایف پی' کی جانب سے خوراک کی کمی کا شکار قرنِ افریقہ کے ایک کروڑ سے زائد افراد کوآئندہ 12 ماہ تک امداد کی فراہمی کے لیے درکار 1 ارب 60 کروڑ ڈالرز فراہم کرنے کی اپیل کی جائے گی۔
اس سے قبل منگل کو اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے چار خلیجی ممالک کے حکمرانوں سے علیحدہ علیحدہ گفتگو کرتے ہوئے ان پر "بدتر ہوتے انسانی المیہ" سے نمٹنے کے لیے مزید امداد فراہم کرنے پر زور دیا تھا۔
ڈبلیو ایف پی کی ڈائریکٹر کے مطابق سعودی عرب کے حکمران شاہ عبداللہ نے خطے میں غذائی اشیاء کی فراہمی کے لیے حال ہی میں مزید 50 ملین ڈالرز فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔
اقوامِ متحدہ کےمطابق خطے کے ایک کروڑ 10 لاکھ سے زائد افراد کو زندہ رہنے کے لیے فوری امداد کی ضرورت ہے۔
صومالیہ کو حالیہ قحط سالی کا مرکز قرار دیا جا رہا ہے جہاں 'ڈبلیو ایف پی' کی ڈائریکٹر کے بقول لگ بھگ ایک تہائی آبادی غذائی کمی کا شکار ہے۔
جوزٹ شیران کا کہنا ہے کہ صومالیہ میں غذائی قلت کی سطح انتہائی بلند ہے جہاں سے پڑوسی ملک کینیا میں قائم پناہ گزین کیمپوں کی جانب جانے والی بھوک کا شکار مائیں اپنے بچے مرنے کے لیے سڑک کے کنارے چھوڑ جانے پر مجبور ہورہی ہیں۔
عالمی امدادی ایجنسیوں کی جنوبی صومالیہ کے علاقوں تک رسائی القاعدہ سے منسلک مقامی شدت پسند گروپ 'الشباب' کے باعث بھی متاثر ہورہی ہے جو خطے کے بیشتر علاقوں پر قابض ہے۔ شدت پسند تنظیم اس سے قبل ماضی میں امدادی اداروں کو دھمکیاں دیتی آئی ہے اور اس کی جانب سے تردید کی گئی ہے کہ علاقہ میں قحط کی صورتِ حال موجود نہیں۔
پناہ گزینوں سے متعلق اقوامِ متحدہ کے ادارے نے گزشتہ روز کہا تھا کہ دارالحکومت موغادیشو میں قائم کردہ کیمپوں میں گزشتہ دو ماہ کے دوران ایک لاکھ سے زائد صومالی باشندے پناہ لے چکے ہیں جبکہ قحط کا شکار لوگوں کی آمد کا سلسلہ اب بھی جاری ہے اور روزانہ ایک ہزار افراد کیمپوں میں پہنچ رہے ہیں۔
ادارے کے مطابق کئی ہزار صومالی باشندے پڑوسی ممالک کینیا اور ایتھوپیا میں قائم کیے گئے امدادی کیمپوں کی جانب نقل مکانی کر گئے ہیں۔