عسکریت پسند تنظیم حماس کے اسرائیلی شہریوں پر مہلک حملوں ، اسرائیل کے تباہ کن فضائی حملوں اور غزہ کی ناکہ بندی نے بین الاقوامی قانونی ماہرین اس بحث کو جنم دیا ہے کہ آیا دونوں فریق بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے کمیشن آف انکوائری نے کہا ہے کہ گزشتہ ہفتے تشدد شروع ہونے کے بعد سے وہ "ہر طرف سے کیے گئے جنگی جرائم سے متعلق شواہد اکٹھا اور محفوظ کر رہا ہے"۔
خبر رساں ادارے "ایسوسی ایٹڈ پریس" کے مطابق اکٹھے کیے گئے ثبوت کو بین الاقوامی فوجداری عدالت کی جانب سے ماضی کے تنازعات میں اسرائیل اور حماس کے مبینہ جنگی جرائم کی تحقیقات میں شامل کیا جا سکتا ہے۔
امریکی بین الاقوامی قانون کے ماہر اور سیرالیون کے لیے اقوام متحدہ کی خصوصی عدالت کے بانی چیف پراسیکیوٹر ڈیوڈ کرین نے کہا، "بغیر کسی فوجی ضروری وجہ کے شہریوں اور شہری اشیاء کو دانستہ طور پر نشانہ بنانا ایک جنگی جرم ہے۔ اور یہ ایک ایسا معیار ہے جس پر بین الاقوامی قانون کے تحت دونوں فریقوں کو پابند کیا جاتا ہے۔"
SEE ALSO: اسرائیل فلسطینی تنازع پر جنگی جرائم کے کن بین الاقوامی قوانین کا اطلاق ہوتا ہے؟جنگ کے دوران اسرائیل کے قریب ترین اتحادی امریکہ نے بھی احتیاط سے کام لینے کا کہا ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے بدھ کے روز یہودی رہنماؤں کے ساتھ ایک ملاقات میں کہا کہ انہوں نے اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو سے کہا کہ یہ واقعی اہم ہے کہ اسرائیل، تمام تر غصے اور مایوسی کے باوجود، جنگ کے اصولوں پر عمل در آمد کریں۔
کیا حماس نے جنگی جرائم کا ارتکاب کیا؟
اسرائیل کی حفاظتی رکاوٹ کو توڑنے کے بعد حماس کے عسکریت پسندوں نے گزشتہ ہفتے کی صبح غزہ کی پٹی کے آس پاس کے سرحدی علاقوں میں خواتین اور چھوٹے بچوں سمیت پورے پورے خاندانوں کو گولی مار دی۔ اسرائیل کی ہیلتھ سروس نے کہا کہ اس نے کیبوٹز بیری میں بسنے والی کمیونٹی کے سو سے زائد افراد کی لاشیں نکالی ہیں۔
عسکریت پسندوں نے ایک میوزک فیسٹیول پر حملہ کر کے لوگوں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ حملے کے دوران لوگ پناہ لینے کی کوشش کرتے رہے۔
ان حملوں میں اسرائیل میں 1,300 سے زیادہ لوگ مارے گئے، جن میں 247 فوجی بھی شامل تھے۔ رپورٹس کے مطابق گزشتہ کئی دہائیوں سے اسرائیل میں اتنی بڑی تعداد میں اموات واقع نہیں ہوئیں۔
SEE ALSO: اسرائیل میں جو کچھ ہوا اسے کوئی بھی ملک برداشت نہیں کر سکتا، بلنکنانسانی حقوق کی تنظیم "ہیومن رائٹس واچ "کے اسرائیل اور فلسطین کے ڈائریکٹر عمر شاکر نے حماس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ "عام شہریوں کو گولی مارنا، خواتین اور بچوں کو یرغمال بنانا - بین الاقوامی قانون کی بلا شبہ سنگین خلاف ورزیاں ہیں، جن کا کوئی جواز نہیں ہے۔"
بین الاقوامی قانون کی ویب سائٹ "اوپینیو جیورس " پر شائع ہونے والے ایک تجزیے میں کورنیل لا اسکول کے پروفیسر جینز ڈیوڈ اوہلن نے لکھا ہے کہ حماس کے حملے، بین الاقوامی فوجداری عدالت کے بانی روم کے آئین کے تحت جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے مترادف ہیں۔
اس سلسلے میں انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے احتساب کا مطالبہ کیا۔
SEE ALSO: اسرائیل اور حماس کی جنگ کاانسانی المیہتنظیم کے سیکرٹری جنرل اگنیس کالمارڈ نے کہا کہ عام شہریوں کا قتل عام ایک جنگی جرم ہے اور ان قابل مذمت حملوں کا کوئی جواز نہیں ہو سکتا۔
انہوں نے کہا، "ان جرائم کی تحقیقات بین الاقوامی فوجداری عدالت کی موجودہ تنازعہ میں تمام فریقین کے جرائم کی جاری تحقیقات کے حصے کے طور پر کی جانی چاہیے۔"
کیا اسرائیل کا فوجی ردعمل قانونی ہے؟
اسرائیلی فوج نے ممکنہ زمینی حملے سے قبل حماس کے زیر اقتدار غزہ کی پٹی کے بڑے حصے کو فضائی حملوں سے تباہ کر دیا ہے اور خوراک، پانی، ایندھن اور بجلی کی ترسیل کو روک دیا ہے۔ بمباری سے غزہ میں پہلے ہی اسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق 1,800 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں اقوام متحدہ کے کارکنان، طبی عملے اور صحافی شامل ہیں۔
اس ضمن میں ماہرین کا کہنا ہے کہ ناکہ بندی، جو علاقے کے 20 لاکھ سے زیادہ باشندوں کو متاثر کر رہی ہے، بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ "اجتماعی سزا ایک جنگی جرم ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ہیومن رائٹس واچ کے اسرائیل اور فلسطین کے ڈائریکٹر عمر شاکر کہتے ہیں بجلی، پانی، خوراک کاٹ کر، امداد کو غزہ کی پٹی میں داخل ہونے سے روک کر اسرائیل مبینہ طور پر ایسا کر رہا ہے ۔"
جمعہ کے اوائل میں، اسرائیلی فوج نے غزہ کی پٹی کے شمالی علاقوں میں رہنے والے تقریباً 10 لاکھ شہریوں کو اسرائیل کے زمینی حملے کے خدشے کے پیش نظر انخلا کی ہدایت کی۔ دوسری طرف حماس نے شہریوں کو گھروں میں رہنے کی اپیل کی ہے۔
اسرائیل اور حماس کیا کہتے ہیں؟
اسرائیلی حکام نے دعوی کیا ہے کہ غزہ میں حماس کے خلاف ان کے حملے، جنہوں نے پورے محلوں کو ملبے میں تبدیل کر دیا گیا ہے، بین الاقوامی انسانی قانون کے مطابق ہیں۔
واشنگٹن پوسٹ کے مطابق اسرائیلی صدر اسحاق ہرزوگ نے جمعہ کو ایک میڈیا بریفنگ میں کہا، "ہم عسکری طور پر بین الاقوامی قانون کے اصولوں کی شرائط کے مطابق کام کر رہے ہیں۔"
SEE ALSO: اسرائیل غزہ کے شہریوں کے لیے ہر ممکن احتیاط سے کام لے:بلنکنعسکریت پسند تنظیم حماس کے سینیئر رہنما موسٰی ابو مرزوق نے اس ہفتے اکانومسٹ میگزین سے بات کرتے ہوئے دعوی کیا کہ ان کا گروپ، جس نے اسرائیل میں 1,300 سے زیادہ افراد کو ہلاک کردیا، "تمام بین الاقوامی اور اخلاقی قوانین کی پاسداری کرتا ہے اور یہ کہ آپریشن کے دوران صرف "فوجی چوکیوں" کو نشانہ بنایا گیا۔
اس خبر میں زیادہ تر معلومات خبر رساں ادارے اے پی سے لی گئی ہیں۔