رسائی کے لنکس

بشارالاسد کے عہدے داروں کے خلاف فرانس میں انسانی جرائم کا مقدمہ


شام کے علاقے ادلب کے قریب باغیوں کے زیر قبضہ کفروما گاؤں میں اپنے ایک بیٹے محمد کی تصویر دکھا رہی ہیں۔ حکام نے ان کے دو بیٹوں کو حراست میں لیا تھا،جس میں سے ایک تشدد سے ہلاک ہو گیا۔ 5 مارچ 2016
شام کے علاقے ادلب کے قریب باغیوں کے زیر قبضہ کفروما گاؤں میں اپنے ایک بیٹے محمد کی تصویر دکھا رہی ہیں۔ حکام نے ان کے دو بیٹوں کو حراست میں لیا تھا،جس میں سے ایک تشدد سے ہلاک ہو گیا۔ 5 مارچ 2016

منگل کو اے ایف پی نےجو عدالتی دستاویزات دیکھی ہیں ان کے مطابق فرانسیسی ججوں نے شام میں بشار الاسد حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں پر انسانیت کے خلاف جرائم میں ساز باز کا مقدمہ چلانے کا حکم دیا ہے۔ یہ فرانس میں اس نوعیت کاپہلا اقدام ہے۔

ان میں بعث پارٹی کے قومی سلامتی بیورو کے سربراہ علی مملوک، شامی فضائیہ کے انٹیلی جنس ڈائریکٹریٹ کے سابق سربراہ جمیل حسن اور فضائیہ کے ایک اور انٹیلی جنس افسر عبدالسلام محمود شامل ہیں۔

گزشتہ بدھ کو دستخط کیے گئے اس حکم میں کہا گیا ہے کہ عہدہ داروں پر جو سب اسد کے سینئر مشیر ہیں، انسانیت کے منافی جرائم اور جنگی جرائم میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔

فرانسیسی استغاثہ کا خیال ہے کہ تینوں عہدیدار دوو فرانسیسی نژاد شامی شہریوں، مازن دباغ اور ان کے بیٹے پیٹرک کی موت کے ذمہ دار ہیں، جنہیں 2013 میں گرفتار کیا گیا تھا۔

بہر حال شامی عہدہ داروں یا ان کی نمائندگی کرنے والے وکیلوں کی مقدمے کے لیے پیش ہونے کی توقع نہیں ہے ۔

فرانس نے ان تینوں کے بین الاقوامی وارنٹ گرفتاری جاری کیے ہیں۔ ممکنہ جبری گمشدگیوں اور تشدد کی کارروائیوں کے بارے میں ابتدائی تحقیقات 2015 میں شروع کی گئی تھیں جب دونوں کے خاندان نے شکایت درج کروائی تھی۔

2016 میں مکمل تحقیقات کا دائرہ وسیع کر دیا گیا تھا اور دو سال بعد بین الاقوامی گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے گئے تھے۔

مازن دباغ دمشق کے فرانسیسی اسکول میں مشیر کی حیثیت سے کام کر رہے تھے اور پیٹرک دباغ، دمشق یونیورسٹی میں ادب اور ہیومینٹیز کی فیکلٹی میں زیر تعلیم تھے۔

انہیں نومبر 2013 میں خود کو ایئر فورس انٹیلی جنس سروسز کے ارکان کے طور پر شناخت کرنے والے افسران نے گرفتار کیا تھا۔

تاریخی فیصلہ

مازن دباغ کے بہنوئی عبیدہ دباغ کے مطابق،جنہیں بھی حراست میں لیا گیا تھا، لیکن دو دن بعد رہا کر دیا گیا۔ ان دونوں کو میزے جیل لے جایا گیا، جو کہ حکومت کا مرکزی ٹارچر سینٹر سمجھا جاتا ہے۔

ان کے بارے میں اس کے بعد کچھ خبر نہیں ملی اور 2018 میں حکومت نے انہیں مردہ قرار دے دیا۔ پیٹرک کی موت 2014 اور اس کے والد کی موت 2017 میں ہوئی۔

فرانسیسی تفتیش کاروں اور ایک این جی او ،کمیشن فار انٹرنیشنل جسٹس اینڈ اکاونٹیبلٹی،کے ذریعے جمع کیے گئے گواہوں کے بیانات کے مطابق، ان دونوں کے پیروں کے تلووں پر لوہے کی سلاخیں ماری گئیں، بجلی کے جھٹکے لگائے گئے اور ان کے ناخن کھینچ لیے گئے۔

تفتیش کرنے والے فرانسیسی ججوں کا کہنا ہے کہ اس سے’’بہت حد تک ثابت ہوتا ہے‘‘ کہ انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا ‘‘، جو اتنا شدید تھا کہ جان لیوا ثابت ہوا۔

ان کا گھر ضبط کر لیا گیا اور بعد میں جمیل حسن کو تقریباً 30 یورو (32 ڈالر) سالانہ کے حساب سے کرائے پر دے دیا گیا۔ ججوں کے مطابق، یہ حقیقت اسے جنگی جرائم کا شریک بناتی ہے۔

عبیدہ دباغ نے مقدمے کے حکم کا خیر مقدم کرتے ہوئے اے ایف پی کو بتایا کہ اس سے شامی حکومت کو اشارہ ملتاہے کہ ’’ایک دن استثنیٰ ختم ہو جائے گا‘‘۔

انٹر نیشنل فیڈریشن فار ہیومن رائٹس، نے فرد جرم کو ’’ایک تاریخی فیصلہ‘‘ قرار دیا۔ یہ پہلا موقع ہے جب فرانسیسی عدلیہ شامی عہدہ داروں کے خلاف سنگین جرائم کا مقدمہ چلارہی ہے۔

پڑوسی ملک جرمنی پہلے بھی ایسے ہی مقدمات کو عدالت میں لا چکا ہے۔ گزشتہ سال جنوری میں جرمنی کی ایک عدالت نے شام میں ریاستی سرپرستی میں ہونے والے تشدد پر پہلے عالمی مقدمے میں ایک سابق شامی کرنل کو انسانیت کے خلاف جرائم کے جرم میں عمر قید کی سزا سنائی تھی۔

اپریل 19، 2020 کی تصویر میں شامی وسیم مقداد یورپی مرکز برائے آئینی اور انسانی حقوق کے مرکز میں ہیں۔ جرمن شہر کوبلنز کی ایک عدالت جمعرات کو شام کے ایک سابق خفیہ پولیس افسر انور رسلان کے مقدمے میں اپنا فیصلہ سنایا تھا، جس پر ایک دہائی قبل دمشق کے قریب ایک جیل میں قیدیوں کے ساتھ بدسلوکی کی نگرانی کرنے پر انسانیت کے خلاف جرائم کا الزام ہے۔ اے پی فوٹو۔
اپریل 19، 2020 کی تصویر میں شامی وسیم مقداد یورپی مرکز برائے آئینی اور انسانی حقوق کے مرکز میں ہیں۔ جرمن شہر کوبلنز کی ایک عدالت جمعرات کو شام کے ایک سابق خفیہ پولیس افسر انور رسلان کے مقدمے میں اپنا فیصلہ سنایا تھا، جس پر ایک دہائی قبل دمشق کے قریب ایک جیل میں قیدیوں کے ساتھ بدسلوکی کی نگرانی کرنے پر انسانیت کے خلاف جرائم کا الزام ہے۔ اے پی فوٹو۔

اس وقت شام میں تشدد کے متاثرین اور انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا تھا کہ انہیں امید ہے کہ تاریخی مقدمے میں آنے والا فیصلہ ان لاتعداد شامیوں کے لیے انصاف کی جانب پہلا قدم ہو گا جنہیں ملک کے طویل عرصے سے جاری تنازع میں صدر بشار الاسد کی حکومت کے ہاتھوں بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑا۔

58 سالہ انور رسلان کو 2011 اور 2012 میں دمشق کے الخطیب حراستی مرکز میں 27 افراد کے قتل اور 4000 دیگر افراد پر تشدد کی نگرانی کرنے کا مجرم پایا تھا۔

(یہ رپورٹ اے ایف پی کی معلومات پر مشتمل ہے)

XS
SM
MD
LG