اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کےادارے کےسربراہ وولکر ترک نے منگل کے روز کہا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ کی پٹی کا مکمل محاصرہ وہاں کے رہائشیوں کو ان تمام ضروریات زندگی سے محروم کر رہا ہے جو بقا کے لیے ضروری ہیں اور جس کی بین الاقوامی قانون ممانعت کرتا ہے۔
وولکر نے تمام فریقوں پر زور دیا کہ وہ ’’ خطرناک حد تک بحرانی صورت حال کو ‘‘ معمول پر لانے کی کوشش کریں جب کہ اسرائیل نے خبردار کیا ہے کہ وہ فلسطینی عسکریت پسند گروپ کو تباہ کرنے تک جنگ جاری رکھے گا۔
وولکر ترک کہتے ہیں کہ ’’ ہم اپنے تلخ تجربات کے نتیجے میں یہ جانتے ہیں کہ انتقام کوئی جواب نہیں ہوتا اور بالآخر بے گناہ شہریوں کو اس کی قیمت چکانا پڑتی ہے۔‘‘
حماس نے اختتام ہفتہ اسرائیل پر اچانک حملہ کر دیا اور تقریباً 150 اسرائیلی افراد کو اغوا بھی کر لیا۔ حماس نے دھمکی دی تھی کہ اگر اسرائیل بغیر کسی انتباہ کے غزہ کے رہائشیوں پر فضائی حملوں کا سلسلہ جاری رکھتا ہے تو ہر حملے پر دکھ کے ساتھ مجبورأ ایک یرغمالی کو ہلاک کر دیا جائے گا۔
اس دھمکی سے پہلے ہی اسرائیل کی جانب سے پیر کے روز غزہ کی پٹی کا مکمل محاصرہ کر لیا گیا تھااور اس کے نتیجے میں وہاں خوراک، پانی اور بجلی کی سپلائی منقطع ہوگئی ہے۔
ترک نے ایک بیان میں کہا ہے کہ "ایسے محاصرے کا نفاذ بین الاقوامی انسانی قانون کے تحت ممنوع ہے جو شہریوں کو اپنی بقا کے لیے درکار سامان سے محروم کر کے ان کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالتا ہے۔‘‘
بیان میں کہا گیا ہے کہ محاصرے کے نتیجے میں غزہ کو سنگین خطرات لاحق ہیں جہاں پہلے سے ہی انسانی حقوق اور فلاحی صورت حال دگرگوں ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ محاصرے کے اطلاق کے لیے لوگوں اور سامان کی نقل و حرکت پر کسی بھی قسم کی پابندی کو فوجی ضرورت کے تحت جائز قرار دیا جانا چاہیئے وگرنہ اسے اجتماعی سزا کے طور پر لیا جائے گا۔
قتل اور لاشوں کی بے حرمتی کی اطلاعات
ترک نے بااثر ممالک پر زور دیا کہ وہ صورت حال کی سنگین نوعیت کو کم کرنے کی کوشش کریں۔انہوں نے کہا کہ ’’ہم جانتے ہیں کہ صورت حال وقتا فوقتا اس نہج پر کیسے پہنچتی ہے۔ اسرائیلی اور فلسطینی جانوں کا نقصان دونوں برادریوں کے لیے ناقابلِ یقین حد تک تکلیف کا باعث ہے۔‘‘
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے لیے ہائی کمشنر نے کہا کہ انہیں "شہریوں کو پھانسی دینے کے الزامات اور بعض صورتوں میں فلسطینی مسلح گروپوں کے ارکان کی طرف سے ہولناک قتل عام کے الزامات پر شدید صدمہ اور مایوسی ہوتی ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’’ فلسطینی مسلح گروپوں کی طرف سے تحویل میں لیے گئے لوگوں کے ساتھ ناروا سلوک کی تصاویر اوران کے قتل اور لاشوں کی بے حرمتی کی اطلاعات ہولناک اور انتہائی تکلیف دہ ہیں۔
عام شہریوں کو کبھی بھی سودے بازی کے لیے استعمال نہیں کرنا چاہیئے
انسانی حقوق کے ہائی کمشنر وولکر ترک نے فلسطینی مسلح گروپوں پر زور دیا کہ وہ اغوا کیے گئے شہریوں کو فوری اور غیر مشروط طور پر رہا کریں ۔ ان کا کہنا ہے کہ یرغمال بنانا بین الاقوامی قانون کے تحت ممنوع ہے۔
جنیوا میں اسرائیل کے مشن نے اس کے جواب میں کہا کہ ترک نے "یہ ذکر نہیں کیا کہ سنگین صورت حال پیدا کس نے کی ‘‘ اور مشن نے حماس کو دہشت گرد قرار نہ دینے پر تنقیدبھی کی۔
مشن کا کہنا ہے کہ ’’یہ ایسی صورت حال نہیں ہے جو ’بار بار سامنے آتی ہے‘۔ یہ بے گناہ اسرائیلیوں کے قتل کی ایسی واردات ہے جس کی مثال نہیں ملتی اور اسرائیل کو اس بربریت کے خلاف اپنے دفاع کا پورا حق حاصل ہے۔‘‘
مشن کے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’’اسرائیل غزہ میں صرف دہشت گردانہ تنصیبات کو نشانہ بناتا ہے جب کہ حماس غزہ میں مقامی آبادی اور یرغمالیوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔‘‘
جنگی جرائم کا ’’واضح ثبوت‘‘
اس دوران اسرائیل فلسطین تنازعہ میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کے بارے میں اقوام متحدہ کی جاری تحقیقات میں بتایا گیا ہے کہ ہفتے کے روز حماس کے اچانک حملے کے بعد ’’پہلے سے ہی واضح شواہد موجود ہیں کہ جنگی جرائم کا ارتکاب ہوا ہو۔‘‘
کمیشن آف انکوائری یا سی او آئی نے کہا کہ ’’ جن تمام افراد نے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کی ہے اور شہریوں کو نشانہ بنایا ہے، ان کو اپنے جرائم کے لیے جوابدہ ہونا چاہیئے۔‘‘
آزاد کمیشن نے کہا کہ وہ حالیہ تنازعہ میں ’’تمام فریقوں کی طرف سے کیے گئے جنگی جرائم کے شواہد جمع اور محفوظ کر رہا ہے۔‘‘
کمیشن کا کہنا ہے کہ ’’شہریوں کو یرغمال بنانا اور انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرنا جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے۔‘‘
کمیشن کو غزہ کی پٹی میں اسرائیل کے مکمل محاصرے پر بھی ’’شدید تشویش‘‘ ہے، ’’جس کے نتیجے میں بلاشبہ شہریوں کی جانیں ضائع ہوں گی اور یہ اجتماعی سزا میں شمار ہو گا۔‘‘
اس رپورٹ کی تفصیلات اے ایف پی سے لی گئی ہیں۔
فورم