پاکستان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے خصوصی اجلاس میں روس کے یوکرین پر حملے کے خلاف قرارداد پر رائے شماری میں حصہ نہیں لیا ۔
روس کے حملے کے خلاف قرارداد پر 141 ممالک نے حق میں ووٹ دیا جبکہ پانچ ممالک نے اس کی مخالفت کی۔ پاکستان ان 35 ممالک میں شامل ہے جنہوں نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا ہے۔
اقوام متحدہ کے اس اجلاس کے حوالے سے پاکستان میں یورپی یونین اور دیگر اہم ممالک کے سفراء نے منگل کو اسلام آباد پر زور دیا تھا کہ وہ روس کی جانب سے یوکرین پر حملے کی مذمت کرے۔پاکستان نے بدھ کو جنرل اسمبلی میں یوکرین سے روسی افواج کے فوری انخلا کا مطالبہ کرنے والی قرارداد پر جاری بحث میں محتاط طرز عمل اپنایا۔
یوکرین بحران پر اپنے موقف کا اظہار کرتے ہوئے اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقبل مندوب منیر اکرم نے کشیدگی میں کمی، نئے سرے سے مذاکرات، پائیدار بات چیت اور مسلسل سفارت کاری کی ضرورت پر زور دیا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان حالیہ واقعات پر گہری تشویش میں مبتلا ہے اور یہ سفارت کاری کی ناکامی کو ظاہر کرتا ہے۔
منیر اکرم نے امید ظاہر کی کہ روسی فیڈریشن اور یوکرین کے نمائندوں کے درمیان شروع ہونے والی بات چیت دشمنی کے خاتمے اور حالات کو معمول پر لانے میں کامیاب ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ متعلقہ کثیر الجہتی معاہدوں، بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی دفعات کے مطابق سفارتی حل ناگزیر ہے۔
اس سے قبل پاکستان نے سوموار کو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل میں ووٹ دینے سے گریز کیا تھا جہاں جنگ سے متعلق فوری بحث شروع کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔پاکستان کا موقف ہے کہ وہ اس تنازعے میں غیر جانبدار رہنا چاہتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان بھی کہہ چکے ہیں کہ وہ روس اور یوکرین کے تنازعے کے مذاکراتی حل کے حق میں ہیں۔
پچیس فروری کو جب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں یوکرین پر روسی حملے کے خلاف ایک مذمتی قرارداد پر رائے شماری ہوئی تھی، تو چین، بھارت اور متحدہ عرب امارات نے اس میں حصہ نہیں لیا تھا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان یوکرین تنازعے میں براہ راست فریق نہیں ہے جس کے باعث وہ غیر جانبدار رہنا چاہتا ہے۔ تاہم، یہ پاکستان کے لیے آسان مرحلہ نہیں ہوگا۔
تجزیہ نگار زاہد حسین کہتے ہیں کہ پاکستان خود کو اس تنازعے سے الگ رکھنا چاہتا ہے۔ تاہم، پیدا شدہ صورتحال میں پاکستان کے لیے توازن رکھنا خاصا مشکل ہوگا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ خطے میں بننے والی مجموعی صورتحال اور امریکہ کے ساتھ تعلقات میں گرواٹ کے سبب پاکستان نے یہ حکمت عملی اپنائی ہے۔
SEE ALSO: یوکرین پرحملہ، مذمتی قرار داد منظور: چین سمیت پاکستان،بھارت اور بنگلہ دیش نے ووٹ نہیں دیازاہد حسین کہتے ہیں کہ یہ جنگ روس یوکرین کی نہیں بلکہ اب یورپ اور روس کی جنگ بن گئی ہے اور چین، روس سے قربت کے باعث پاکستان کےلیے یہ ممکن نہیں کہ یورپ کے ساتھ کھڑا ہوسکے۔
انہوں نے کہا کہ یوکرین جنگ کے بعد عالمی سیاست میں خاصی تبدیلیاں واقع ہوں گی جس کا اظہار یورپی یونین کے سفراء کے خط میں نظر آتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس نئی پیدا شدہ صورتحال میں پاکستان کےلیے کافی مراحل درپیش ہوں گے جس کے لیے ماہر سفارتکاری درکار ہوگی جو کہ پاکستان کے دفتر خارجہ کے لئے آسان نہیں ہے۔
پاکستان کی جانب سے روس یوکرین تنازعے پر غیر جانبدار رہنے کی پالیسی پر تبصرہ کرتے ہوئے زاہد حسین نے کہا کہ اسلام آباد کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں یہ واضع کرنا چاہئے تھا کہ کسی بھی ملک کے خلاف جارحیت قبول نہیں کی جاسکتی۔انہوں نے کہا کہ پاکستان یوکرین کی آزادی و سالمیت کی حمایت کے بیانات دیتا رہا ہے اور اسی موقف کا اظہار جنرل اسمبلی میں بھی کیا جانا چاہئے تھا۔
سابق سفارتکار نجم الثاقب کہتے ہیں کہ پاکستان نے روس اور یوکرین کی جنگ کے مضمرات، معاملات اور حالات دیکھنے کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے کہ غیر جانبدار رہا جائے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان نے صدر ولادیمیر پوٹن سے ملاقات میں بھی اظہار کیا گیا تھا کہ وہ اس مسئلے کا سفارتی حل چاہتے ہیں۔پاکستان کے غیر جانبدار رہنے پر نجم الثاقب کہتے ہیں کہ یہ فیصلہ اس وجہ سے بھی کیا گیا کہ پاکستان کے امریکہ کے ساتھ تعلقات تاریخ کی نچلی سطح پر ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جب پاکستان نے یہ کہا کہ وہ کسی بلاک کا حصہ نہیں بنے گا، اس وقت چین اور امریکہ کی سرد جنگ شروع ہوچکی تھی اور دو دھارے بنتے نظر آرہے تھے اور اسلام آباد نے روس یوکرین محاذ میں بھی اسی پالیسی کو جاری رکھا ہے۔
نجم الثاقب کہتے ہیں کہ واشنگٹن سے فون اور یورپی سفراء کے بیان کے باوجود پاکستان اپنے موقف پہ مضبوطی سے جما ہوا ہے کہ روس یوکرین کے معاملات سیاسی و سفارتی طور پر حل ہوں۔
انہوں نے کہا کہ جنرل اسمبلی اجلاس سے غیر حاضر کی صحیح تشریح نہیں بتائی جاسکتی اور اس کے کئی مطلب لیے جاسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے غیر حاضر رہنے کا مطلب یہ نہیں کہ روس کی حمایت کی جارہی ہے بلکہ اس کا مطلب ہے کہ پاکستان چاہتا ہے کہ اس معاملے کا سفارتی حل نکلنا چاہئے۔
نیم الثاقب کہتے ہیں کہ یوکرین تنازعے پر اپنائے گئے موقف میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کی سمت تبدیل ہونے کا عنصر ضرور دکھائی دیتا ہے لیکن پاکستان نے روس کی حمایت نہیں کی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کا روس کی جانب جھکاؤ نہیں بلکہ خارجہ پالیسی کی خود مختاری سامنے ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ مغرب نے افغانستان میں استحکام کے حوالے سے پاکستان کے تحفظات کو نہیں سنا اور ایف اے ٹی ایف جیسے عالمی فورمز پر دباؤ میں لانے کی کوشش کی جس کے سبب پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کرنا پڑی۔
وزیر اعظم عمران خان، جنہیں یوکرین پر روسی حملے کے وقت ماسکو میں موجود ہونے کی وجہ سے تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا، کا کہنا ہے کہ ''میری حکومت کی خارجہ پالیسی خود مختار ہے اور چین اور روس کے میرے دورے مستقبل میں پاکستان کے لیے سود مند ثابت ہوں گے۔‘‘