اقوام متحدہ کے جوہری امور کے نگران ادارے کے سربراہ نے منگل کے روز کہا ہے کہ ایران میں ان کے انسپکٹروں کو پابندیوں کا سامنا ہے جس کی وجہ سے وہ دنیا کو ایک ایسے وقت میں اس کی جوہری سرگرمیوں کی حقیقی تصویر کی بجائے بہت دھندلی تصویر ہی پیش کر سکتے ہیں، جب وہ یورینیم کو جوہری ہتھیار تیار کرنے کی سطح تک افزودہ کرنے کے بہت قریب پہنچ چکا ہے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے ساتھ ایک تفصیلی انٹرویو میں رافیل ماریانو گروسی نے کہا کہ وہ ایران کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اگر وہ قوموں کی برادری میں ایک قابل احترام ملک کے طور پر رہنا چاہتا ہے تو اسے بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے ساتھ تعاون کرنا ہو گا۔
ایران کے پہلے جوہری بجلی گھر کا دورہ کرنے کے بعد جوہری توانائی کے عالمی ادارے کے سربراہ نے متحدہ عرب امارات میں اپنے انٹرویو میں کہا کہ تہران کو ہمارے ساتھ مل کر کام کرنا ہو گا۔
اس سے قبل ویانا میں عالمی طاقتوں کے ساتھ ایران کے جوہری معاہدے کی بحالی سے متعلق مذاکرات آگے نہیں بڑھ سکے تھے۔ اور ایران کے شہری مقاصد سے متعلق جوہری پروگرام کے سربراہ نے کہا تھا کہ ان کا ملک جوہری توانائی کے نگران عالمی ادارے کو اپنے حساس سینٹری فیوجز تیار کرنے کے پلانٹ تک رسائی کی اجازت نہیں دے گا۔
یہ سینٹری فیوجز کرج میں قائم ایک پلانٹ میں تیار کیے جا رہے ہیں جس پر جون میں حملہ ہوا تھا۔ ایران نے اس حملے کا الزام اسرائیل پر لگایا تھا۔ حملے کے بعد ایران نے پلانٹ میں نصب کیمروں کو تبدیل کرنے کے لیے جوہری توانائی کے عالمی ادارے کو رسائی دینے سے انکار کر دیا تھا۔
گروسی کا اپنے انٹرویو میں کہنا تھا کہ عالمی برادری کو ہمارے توسط سے ہی یہ علم ہوتا کہ ایران کے پاس کتنے سینٹری فیوجز ہیں اور ان کی کیا صلاحیت ہے۔ لیکن ہمارے پاس اس کی کوئی حقیقی تصویر نہیں ہے، ایک دھندلا سا تصور ہے۔ یہ چیز بہت اہمیت رکھتی ہے۔
گروسی نے ایران کے اس الزام کو "مضحکہ خیز" قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا کہ بعض تخریب کاروں نے کرج سینٹری فیوجز سائٹ پر حملے کے لیے جوہری توانائی کے عالمی ادارے آئی اے ای اے کے کیمروں کی مدد لی تھی۔ تہران نے اپنے اس دعوے میں کوئی شواہد پیش نہیں کیے۔ ایران کا یہ الزام تہران اور آئی اے ای اے کے درمیان تنازع کی ایک وجہ ہے۔
عالمی طاقتوں کے ساتھ اپنے جوہری معاہدے کے خاتمے کے بعد سے، تہران نے یورینیم کی افزودگی کی سطح 60 فی صد تک بڑھا دی ہے، جب کہ جوہری ہتھیار بنانے کے لیے 90 فی صد افزودہ یورینیم درکار ہوتی ہے۔
اس سے قبل 2015 میں عالمی طاقتوں کے ساتھ ایران کے جوہری معاہدے میں افزودگی کی سطح کو 3 اعشاریہ 67 فیصد تک محدود کر دیا گیا تھا، جو شہری مقاصد اور بجلی پیدا کرنے والے پلانٹ چلانے کے لیے کافی ہوتی ہے۔ اس کے بدلے میں ایران پر عائد اقتصادی پابندیوں میں نرمی کا وعدہ کیا گیا تھا۔
SEE ALSO: ویانا مذاکرات میں ایران کے رویے پر مذاکرات کاروں کا اظہار مایوسی2015 کے بعد سے اب تک زمینی حقائق نمایاں طور پر تبدیل ہو چکے ہیں اور ایران اونچی سطح پر یورینیم افزودہ کر رہا ہے اور دن بدن جوہری ہتھیار بنانے کے قریب ہوتا جا رہا ہے۔ گروسی کہتے ہیں کہ حقیقت یہ ہے کہ اب ہم ایک بہت ہی مختلف قسم کے ایران سے معاملات طے کر رہے ہیں اور اس کے لیے ہمیں نئی حقیقتوں کو پیش نظر رکھنا ہو گا۔
ایران کا اصرار ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے، جب کہ امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں اور آئی اے ای اے کا کہنا ہے کہ ایران 2003 تک جوہری ہتھیاروں کا پروگرام منظم انداز میں چلاتا رہا ہے۔
جوہری توانائی کے عالمی ادارے کے سربراہ گروسی کہتے ہیں کہ جوہری ہتھیار تیار کرنے والے ملکوں کے علاوہ کوئی بھی ملک اس سطح تک یورینیم کو افزودہ نہیں کرتا۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ ایران کے پاس جوہری ہتھیار موجود ہے، ہمارا مطلب یہ ہے کہ اس سطح پر افزودگی کی زیادہ نگرانی کی ضرورت ہے۔
اقوام متحدہ میں ایران کے مشن نے گروسی کے ریمارکس پر تبصرہ کرنے کی درخواست کا فوری طور پر جواب نہیں دیا۔
Your browser doesn’t support HTML5
تاہم ویانا میں مذاکرات کی میز پر یورپی ممالک میں بے چینی بڑھ رہی ہے۔ معاہدے سے نکلنے کے بعد سے امریکہ براہ راست بات چیت میں شریک نہیں ہے۔
گروسی کہتے ہیں کہ ایران کے جوہری پروگرام میں تیز تر پیش رفت کے پیش نظر بات چیت کو بھی جلدی سے آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔
ایران میں قیادت کی تبدیلی کے بعد ایرانی مذاکرات کاروں کا انداز بھی تبدیل ہوا ہے۔ ایرانی وفد کے علی باقری، جو سابق مذاکرتی دور میں بھی شریک رہے ہیں، کہتے ہیں کہ مذاکرات کے سابقہ چھ ادوار محض ایک "مسودہ" تھے۔
گروسی کا کہنا ہے کہ نئے سخت گیر ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے بعد ان کے جوہری مذاکراتی وفد میں واضح تبدیلی آئی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ رئیسی انتظامیہ کے ساتھ تعاون کی صورت حال توقع سے زیادہ سست ہے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کی طرف سے حاصل کردہ سیٹلائٹ تصاویر میں ایران کی نطنز جوہری تنصیب کے جنوب میں ایک پہاڑی میں نئی تعمیرات دکھائی دے رہی ہیں۔ اس علاقے پر مبینہ اسرائیلی حملے ہو چکے ہیں۔ ایران کی ایک اور زیر زمین تنصیب فردو میں بھی نئی تعمیرات دیکھی جا سکتی ہیں، جہاں جوہری معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے یورینیم کو افزودہ کیا جا رہا ہے۔
گروسی نے اپنے انٹرویو میں بتایا کہ ایران نے ان تعمیرات کے متعلق آئی اے ای اے کو آگاہ کر دیا تھا اور ادارے کے انسپکٹرز ان سائٹس پر جاری پیش رفت پر نظر رکھ رہے ہیں۔
دوسری جانب سعودی عرب کا کہنا ہے کہ وہ بھی سینڑی فیوجز پروگرام شروع کرنا چاہتا ہے کیونکہ اسے جوہری طور پر مسلح ایران سے خطرہ ہے۔ یہ صورت حال اس جانب نشاندہی کرتی ہے کہ ایران کی جوہری سرگرمیوں سے علاقے میں جوہری پھیلاؤ کا خطرہ ہے۔
اسرائیل کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس کے پاس جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ دیمانا کے قریب اسرائیل کی ایک خفیہ جوہری تنصیب میں بھی بڑے پیمانے پر تعمیرات جاری ہیں۔ یہ جوہری ری ایکٹر آئی اے ای اے کی نگرانی میں نہیں آتا، جس پر ایران دوہرے بین الاقوامی معیار کا الزام لگاتا ہے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کی جانب سے اسرائیل کے جوہری پروگرام سے متعلق سوال پر آئی اے ای اے کے سربراہ گروسی کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی برادری یہ چاہتی ہے کہ ہر ملک جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے پر دستخط کرے اور آئی اے ای اے کے ساتھ اس سلسلے میں تعاون کرے۔
ایران کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ادارے کے انسپکٹروں کے پاس ایران کے تیزی سے ترقی کرتے ہوئے جوہری پروگرام کی نگرانی اور رسائی کی غیرمعمولی صلاحیت موجود ہے۔ لیکن مسئلہ وقت کا ہے۔ اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے، آپ کے پاس اسے ریکارڈ کرنے کی صلاحیت نہیں ہے، جب انسپکٹروں کو یہ سہولت مل جائے گی تو وہ ریکارڈ اکھٹا کرنا شروع کر دیں گے۔ لیکن درمیانی مدت کا ایک خلا موجود رہے گا۔ نگرانی کے عمل میں خلا اچھی چیز نہیں ہوتی۔