اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک کی بات کریں تو دنیا کے سات ارب لوگوں میں سے چھ ارب کے پاس موبائل فون تو ہے، لیکن ڈھائی ارب کے پاس ٹائلٹ کی سہولت نہیں ہے
یوں تو ٹائلٹ اور موبائل فون میں کوئی مناسبت نہیں، دونوں الگ الگ چیزیں ہیں۔ لیکن، دسترس کی بات کریں تو حیران کن حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی عوام کے پاس ٹائلٹ کم اور موبائل فون زیادہ ہیں۔ پاکستان دنیا کے اُن 10 ممالک میں تیسرے نمبر پر ہے جہاں کے شہری رفع حاجت کے لئے بیت الخلا کے بجائے غیر مناسب جگہوں کا استعمال کرتے ہیں۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اس عمل سے معاشرے میں ہیضے جیسی متعدد بیماریاں پھیل رہی ہیں اور ماحول آلودہ ہورہا ہے۔
گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ کی جانب سے دنیا بھر میں ٹائلٹ سے محروم افراد کے حوالے سے ایک انتہائی حیران کن رپورٹ جاری ہوئی ہے، جس کے مطابق پاکستان کے 11 کروڑ 10 لاکھ افراد ایسے ہیں جن کے پاس اپنا موبائل فون تو ہے، لیکن چار کروڑ لوگوں کو ٹائلٹ کی سہولت میسر نہیں اور وہ رفع حاجت کے لئے کھلی جگہوں ، جنگلات یا کھیتوں کا استعمال کرتے ہیں۔
پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک کی بات کریں تو رپورٹ بتاتی ہے کہ دنیا کے سات ارب لوگوں میں سے چھ ارب کے پاس موبائل فون تو ہے لیکن ڈھائی ارب کے پاس ٹائلٹ نہیں ہے۔
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ دنیا کے22ممالک کی80فی صد آبادی کے پاس رفع حاجت کی مناسب جگہ نہیں اور وہ اس مقصد کے لئے غیر مناسب اورکھلے مقامات کو استعمال کرتے ہیں۔ ان میں برازیل، چین، بھارت، پاکستان، انڈونیشیا، کمبوڈیا، ایتھوپیا، کینیا، مڈغاسکر، مالاوی، موزمبیق، نیپال، نائجیریا، سیرالیون، زمبیا، افغانستان، برکینا فاسو، چاڈ، کانگو، نائجر، سوڈان اور جنوبی سوڈان شامل ہیں۔
اس حوالے سے جب ’وائس آف امریکہ‘ کے نمائندے نے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے اس مسئلے پر ان کے خیالات جاننا چاہے تو بہت سے نئے پہلو اجاگر ہوئے ۔
مری کا شمار پاکستان کے بہترین سیاحتی مقامات میں ہوتا ہے۔ لیکن، مری کے مختلف دیہاتوں میں آج بھی بے شمار لوگ رفع حاجت کے لئے کھلے مقامات یا کھیتوں کا رخ کرتے ہیں۔
مری کے ایک گاؤں بڈہیار کے رہائشی رخسار عباسی نے بتایا کہ مری کے تقریباً ہر گھر میں آپ کو ایک موبائل فو ن مل جائے گا۔ بلکہ، بہت سے گھروں میں تو دو یا تین موبائل فونز بھی موجود ہیں۔ لیکن، یہاں ہر گھر میں ٹائلٹ موجود نہیں ہے۔۔۔رخسار کے مطابق اس کی سب سے بڑی وجہ غربت بھی ہے۔
رخسار عباسی کے بقول سیمنٹ کا ایک بلاک بھی گاؤں تک پہنچتے پہنچتے 80 روپے کا ہو جاتا ہے، جبکہ ایک ٹائلٹ کی تیاری میں کم از کم 30000 روپے کا خرچہ ہو تا ہے۔ اس کے بر عکس، ایک موبائل فون با آسانی ہزار سے دو ہزار روپے میں مل جا تا ہے۔ رخسار عباسی نے بتایا کہ گاؤں کی زیادہ تر آبادی مزدور پیشہ ہے، یہی وجہ ہے کہ لوگ دو ہزار کا موبائل تو خرید لیتے ہیں لیکن مہنگا ٹائلٹ نہیں بنوا سکتے۔
انھوں نے بتایا کہ جن لوگوں نے ٹائلٹس بنائے ہوئے ہیں ان کے پاس نکاسیٴ آب کا بھی کوئی بندو بست نہیں ہے، جس کی وجہ سے گاؤں کے لوگ اکثر مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل جان ایلیزین کی تیاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 1999سے اب تک کھلے مقامات پر رفع حاجت کرنے والے افراد میں 271 ملین کی کمی تو ہوئی ہے۔ لیکن، اب بھی دنیا کی 15 فیصد یا ایک ارب 10 کروڑ افراد کی آبادی کھلے عام رفع حاجت پر مجبور ہے اور یہی ہیضے کے مرض سے ہونے والی ہلاکتوں کی ایک بڑی وجہ ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہر سال 5 سال سے کم عمرکے ساڑھے 7 لاکھ بچے ہیضے کا شکار ہوجاتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق رفع حاجت کے لئے کھلے مقامات استعمال کرنے والے ممالک میں بھارت کا پہلا نمبر ہے، جہاں 893 ملین افراد موبائل فونز کے مالک ہیں جبکہ 626 ملین افراد بیت الخلاء کی سہولت سے محروم ہیں۔
جان ایلیزین نے اس صورت حال کو ’خاموش تباہی‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ صورت حال دنیا میں بدترین غربت اور عدم مساوات کو واضح کر رہی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کھلے مقامات پر رفع حاجت کا 2025 ءتک عملی خاتمہ کرنا ہو گا۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف کے منیجر کنزرویشن سندھ، الطاف شیخ نے بتایا ہے کہ پبلک ٹائلٹ کے حوالے سے کراچی کے مضافاتی علاقوں، جیسے کاکا پیر گاؤں اور یوسف گھوٹھ میں ہاکس بے اور سینڈس پٹ کے قریب کچھ ٹائلٹس بنائے گئے ہیں، لیکن یہ ٹائلٹس سیاحت کی غرض سے آنے والے لوگوں کی سہولت کے لئے قائم کئے گئے ہیں۔ تاکہ، سیاح کھلی فضا میں رفع حاجت کے بجائے ان ٹوائلٹس کا استعمال کریں اور ماحول آلودہ ہونے سے محفوظ رہے۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اس عمل سے معاشرے میں ہیضے جیسی متعدد بیماریاں پھیل رہی ہیں اور ماحول آلودہ ہورہا ہے۔
گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ کی جانب سے دنیا بھر میں ٹائلٹ سے محروم افراد کے حوالے سے ایک انتہائی حیران کن رپورٹ جاری ہوئی ہے، جس کے مطابق پاکستان کے 11 کروڑ 10 لاکھ افراد ایسے ہیں جن کے پاس اپنا موبائل فون تو ہے، لیکن چار کروڑ لوگوں کو ٹائلٹ کی سہولت میسر نہیں اور وہ رفع حاجت کے لئے کھلی جگہوں ، جنگلات یا کھیتوں کا استعمال کرتے ہیں۔
پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک کی بات کریں تو رپورٹ بتاتی ہے کہ دنیا کے سات ارب لوگوں میں سے چھ ارب کے پاس موبائل فون تو ہے لیکن ڈھائی ارب کے پاس ٹائلٹ نہیں ہے۔
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ دنیا کے22ممالک کی80فی صد آبادی کے پاس رفع حاجت کی مناسب جگہ نہیں اور وہ اس مقصد کے لئے غیر مناسب اورکھلے مقامات کو استعمال کرتے ہیں۔ ان میں برازیل، چین، بھارت، پاکستان، انڈونیشیا، کمبوڈیا، ایتھوپیا، کینیا، مڈغاسکر، مالاوی، موزمبیق، نیپال، نائجیریا، سیرالیون، زمبیا، افغانستان، برکینا فاسو، چاڈ، کانگو، نائجر، سوڈان اور جنوبی سوڈان شامل ہیں۔
اس حوالے سے جب ’وائس آف امریکہ‘ کے نمائندے نے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے اس مسئلے پر ان کے خیالات جاننا چاہے تو بہت سے نئے پہلو اجاگر ہوئے ۔
مری کا شمار پاکستان کے بہترین سیاحتی مقامات میں ہوتا ہے۔ لیکن، مری کے مختلف دیہاتوں میں آج بھی بے شمار لوگ رفع حاجت کے لئے کھلے مقامات یا کھیتوں کا رخ کرتے ہیں۔
مری کے ایک گاؤں بڈہیار کے رہائشی رخسار عباسی نے بتایا کہ مری کے تقریباً ہر گھر میں آپ کو ایک موبائل فو ن مل جائے گا۔ بلکہ، بہت سے گھروں میں تو دو یا تین موبائل فونز بھی موجود ہیں۔ لیکن، یہاں ہر گھر میں ٹائلٹ موجود نہیں ہے۔۔۔رخسار کے مطابق اس کی سب سے بڑی وجہ غربت بھی ہے۔
رخسار عباسی کے بقول سیمنٹ کا ایک بلاک بھی گاؤں تک پہنچتے پہنچتے 80 روپے کا ہو جاتا ہے، جبکہ ایک ٹائلٹ کی تیاری میں کم از کم 30000 روپے کا خرچہ ہو تا ہے۔ اس کے بر عکس، ایک موبائل فون با آسانی ہزار سے دو ہزار روپے میں مل جا تا ہے۔ رخسار عباسی نے بتایا کہ گاؤں کی زیادہ تر آبادی مزدور پیشہ ہے، یہی وجہ ہے کہ لوگ دو ہزار کا موبائل تو خرید لیتے ہیں لیکن مہنگا ٹائلٹ نہیں بنوا سکتے۔
انھوں نے بتایا کہ جن لوگوں نے ٹائلٹس بنائے ہوئے ہیں ان کے پاس نکاسیٴ آب کا بھی کوئی بندو بست نہیں ہے، جس کی وجہ سے گاؤں کے لوگ اکثر مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل جان ایلیزین کی تیاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 1999سے اب تک کھلے مقامات پر رفع حاجت کرنے والے افراد میں 271 ملین کی کمی تو ہوئی ہے۔ لیکن، اب بھی دنیا کی 15 فیصد یا ایک ارب 10 کروڑ افراد کی آبادی کھلے عام رفع حاجت پر مجبور ہے اور یہی ہیضے کے مرض سے ہونے والی ہلاکتوں کی ایک بڑی وجہ ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہر سال 5 سال سے کم عمرکے ساڑھے 7 لاکھ بچے ہیضے کا شکار ہوجاتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق رفع حاجت کے لئے کھلے مقامات استعمال کرنے والے ممالک میں بھارت کا پہلا نمبر ہے، جہاں 893 ملین افراد موبائل فونز کے مالک ہیں جبکہ 626 ملین افراد بیت الخلاء کی سہولت سے محروم ہیں۔
جان ایلیزین نے اس صورت حال کو ’خاموش تباہی‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ صورت حال دنیا میں بدترین غربت اور عدم مساوات کو واضح کر رہی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کھلے مقامات پر رفع حاجت کا 2025 ءتک عملی خاتمہ کرنا ہو گا۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف کے منیجر کنزرویشن سندھ، الطاف شیخ نے بتایا ہے کہ پبلک ٹائلٹ کے حوالے سے کراچی کے مضافاتی علاقوں، جیسے کاکا پیر گاؤں اور یوسف گھوٹھ میں ہاکس بے اور سینڈس پٹ کے قریب کچھ ٹائلٹس بنائے گئے ہیں، لیکن یہ ٹائلٹس سیاحت کی غرض سے آنے والے لوگوں کی سہولت کے لئے قائم کئے گئے ہیں۔ تاکہ، سیاح کھلی فضا میں رفع حاجت کے بجائے ان ٹوائلٹس کا استعمال کریں اور ماحول آلودہ ہونے سے محفوظ رہے۔