مہاجرین کے عالمی ادارے (آئی او ایم) نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ یکم جنوری 2020 سے اب تک ساڑھے سات لاکھ افغان شہری ایران اور پاکستان سے سفری دستاویزات کے بغیر ہی اپنے وطن واپس پہنچ گئے ہیں۔
عالمی ادارے کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صرف گزشتہ ایک ہفتے کے دوران 22 ہزار 744 افغان باشندے ایران سے افغانستان میں داخل ہوئے۔ اسی طرح 147 افغان شہری بغیر کسی سفری دستاویزات کے پاکسان سے افغانستان میں داخل ہوئے ہیں۔
سن 1979 میں افغانستان پر سویت یونین کے حملے کے بعد لاکھوں افغان باشندوں نے ملک سے ہجرت کی تھی۔
اقوامِ متحدہ کے مہاجرین کے ادارے اور ادارہ برائے پناہ گزین (یو این ایچ سی آر) کے مطابق پاکستان میں رجسٹرڈ افغان پناہ گزینوں کی تعداد 14 لاکھ ہے۔
یو این ایچ سی آر کے پاکستان میں ترجمان قیصر خان آفریدی کے مطابق افغان پناہ گزینوں کو حکومتِ پاکستان نے 07-2006 میں پروف آف رجسٹریشن (پی او آر) کارڈ جاری کیے تھے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے قیصر خان آفریدی نے بتایا کہ پاکستان میں زیادہ تر افغان پناہ گزین صوبہ خیبر پختونخوا میں مقیم ہیں اور پاکستان میں افغان سیٹیزن کارڈ (اے سی سی) رکھنے والے افغانوں کی تعداد آٹھ لاکھ 80 ہزار ہے۔
اُن کے بقول اے سی سی کارڈ ایک شناختی دستاویز ہے جس کے تحت وہ بطور افغان شہری پاکستان میں رہ سکتے ہیں۔ تاہم ایسے افراد کو یو این ایچ سی آر مہاجرین کی حیثیت نہیں دیتا۔
پاکستان میں مقیم تیسری کیٹیگری میں ایسے افغان شہری آتے ہیں جن کے پاس نہ تو پی او آر کارڈ ہے اور نہ ہی اے سی سی کارڈ۔ وہ بغیر کسی دستاویزات کے پاکستان میں مقیم ہیں اور اُن کی تعداد پانچ لاکھ کے قریب بتائی جاتی ہے۔
قیصر آفریدی نے مزید بتایا کہ 2002 سے اب تک یو این ایچ سی آر کی مدد سے تقریباً 44 لاکھ افغان مہاجرین پاکستان سے اپنے وطن واپس جا چکے ہیں۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق ایران میں رجسٹرڈ افغان مہاجرین کی تعداد 10 لاکھ سے زائد ہے جب کہ 20 لاکھ سے زائد افغانی کسی دستاوز کے بغیر ایران میں مقیم ہیں۔
ایران اور پاکستان سے نقل مکانی ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب افغانستان میں ہر طرف شورش برپا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی، خشک سالی، امن و امان، روزگار اور صحت کے معاملات کی وجہ سے پہلے ہی افغانستان کو کئی مسائل درپیش ہیں۔
رواں برس فروری میں امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے امن معاہدے کے بعد توقع کی جا رہی تھی کہ افغانستان میں جلد امن قائم ہو جائے گا۔ تاہم ستمبر کے دوسرے ہفتے سے اب تک طالبان اور افغان حکومتی نمائندوں کے درمیان بین الافغان امن مذاکرت کی جانب کوئی خاطرخوا پیش رفت نہیں ہوئی جس کے بعد امن کی کوششیں مانند پڑتی ہوئی نظر آ رہی ہیں۔
مذکورہ حالات میں ماہرین مسلسل خبردار کر رہے ہیں کہ بیرونِ ملک سے واپس آنے والے افغان شہریوں کی وجہ سے افغانستان کے مسائل میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے افغانستان کے سرحدی و مہاجرین امور کے معاون سمیم احمدی نے بتایا کہ ایران سے افغان باشندوں کی روانگی کا سلسلہ رواں برس ہی شروع ہوا ہے۔
افغان باشندے بہتر روزگار اور تحفظ کے لیے ہمسایہ ممالک ایران اور پاکستان کا رُخ کرتے ہیں۔
ایران سے بڑی تعداد میں افغان باشندوں کی واپسی کے سوال پر سمیم احمدی کہتے ہیں کہ اس کی دو بنیادی وجوہات ہیں۔ اُن کے بقول افغان باشندے روزگار اور علاج کی غرض سے ایران جاتے ہیں، تاہم کرونا وبا کے باعث خراب صورتِ حال اور ایران پر عالمی اقتصادی پابندیوں کے بعد روزگار کے مواقع کم ہونے کی وجہ سے افغان شہریوں کے لیے ایران میں رہنا سود مند نہیں رہا۔
ایران سے افغانوں کی واپسی کو سمیم احمدی نے کرونا کی عالمی وبا اور اقتصادی پابندیوں کا مجموعہ قرار دیا۔
آئی او ایم کے افغانستان کے چیف آف مشن کے مشیر شفق حبیب کے مطابق 2020 کا سال ممکنہ طور پر ایران سے آنے والے غیر تصدیق شدہ افراد کے حوالے سے سب سے بڑا سال ثابت ہو گا۔
اُن کا کہنا ہے کہ اس سے قبل 2018 میں آٹھ لاکھ 50 ہزار افغان شہری دستاویزات کے بغیر ایران سے واپس آئے تھے۔
وائس آف امریکہ کی جانب سے بھیجے گئے مراسلے کے جواب میں آئی او ایم کے نمائندے نے بتایا کہ ایران سے آنے والے افغان باشندوں کی بڑی تعداد میں واپسی سے افغانستان پر دباؤ بڑھے گا۔
انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ موجودہ صورتِ حال کو مد نظر رکھتے ہوئے گھروں اور املاک سمیت اثاثوں کی فروخت، شہری علاقوں کی طرف نقل مکانی میں ممکنہ طور پر مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔
ان کے بقول ایک محتاط اندازے کے مطابق صوبہ ہرات سے تقریباً 20 ہزار اور صوبہ نمروز سے 20 سے 25 ہزار افغان شہری ایرانی سرحد عبور کرتے ہیں۔
شفق حبیب کے مطابق صوبہ فراہ میں نصر کراسنگ کے ذریعے بھی ہزاروں افراد افغان-ایران سرحد عبور کرتے ہیں۔