اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے طالبان رہنماؤں کی جانب سے افغانستان میں اقوامِ متحدہ کے لیے کام کرنے والی افغان خواتین پر پابندی کی متفقہ طور پر مذمت کی ہے۔ جمعرات کو سلامتی کونسل نے افغان خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کے خلاف کریک ڈاؤن کو جلد از جلد ختم کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
دوسری جانب اقوامِ متحدہ میں چین اور روس کے نمائندوں نےافغان مرکزی بینک کے اثاثے افغان عوام کو واپس کرنے پر زور دیا ہے۔
متحدہ عرب امارات اور جاپان کی طرف سے تیار کی گئی قرارداد میں افغان خواتین پر عائد پابندی سے متعلق کہا گیاہے کہ "اقوامِ متحدہ کی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔"
افغان معاشرے میں خواتین کے' ناگزیر کردار' پر زور دیتے ہوئے قرار داد میں کہا گیا ہے کہ اقوامِ متحدہ کے لیے کام کرنے والی افغان خواتین پر پابندی، انسانی حقوق اور انسانی اصولوں کو مجروح کرتی ہے۔
سال 2021 میں مغربی حمایت یافتہ حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد سے طالبان نے عوامی زندگی تک خواتین کی رسائی پر بھی کنٹرول سخت کر دیا ہے، جس میں خواتین کو یونیورسٹی جانےے روکنا اور لڑکیوں کے ہائی اسکول بند کرنا شامل ہیں۔
طالبان کا کہنا ہے کہ وہ اسلامی شریعت کے مطابق خواتین کے حقوق کا احترام کرتے ہیں، جس کی وہ ایک سخت تشریح کرتے ہیں۔ طالبان حکام نے کہا ہے کہ خواتین کارکنوں کے بارے میں فیصلے ان کے 'اندرونی معاملے' ہیں۔
SEE ALSO: افغان خواتین کو اقوام متحدہ میں کام سےروکنا ہمارا اندرونی معاملہ ہے: ذبیح اللہ مجاہداقوامِ متحدہ کے لیےمتحدہ عرب امارات کی سفیر لانا نصیبہ نے کہا ہے کہ "افغانستان کے قریبی پڑوسی ملک، مسلم دنیا اور زمین کے تمام کونوں سے90 سے زیادہ ممالک " قرارداد کے شریک اسپانسرہیں۔
نہوں نے کونسل کو بتایا کہ "یہ حمایت آج ہمارے بنیادی پیغام کو مزید اہم بناتی ہے - دنیا خاموش نہیں بیٹھے گی کیوں کہ افغانستان میں خواتین کو معاشرے سے مٹایا جا رہا ہے۔"
سلامتی کونسل میں ووٹنگ افغانستان کے بارے میں یکم اور دو مئی کو دوحہ میں ہونے والے بین الاقوامی اجلاس سے چند روز قبل ہوئی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس بند دروازوں کے پیچھے مختلف ممالک سے افغانستان کے لیے خصوصی ایلچی طلب کریں گے تاکہ طالبان سے نمٹنے کے لیے ایک متفقہ نقطہ نظر پر کام کیا جا سکے۔
اقوامِ متحدہ میں نائب امریکی سفیر رابرٹ ووڈ نے کونسل کو بتایا کہ "ہم خواتین اور لڑکیوں پر طالبان کے جبرکو برداشت نہیں کریں گے۔ یہ فیصلے ناقابلِ دفاع ہیں۔ یہ دنیا میں کہیں نظر نہیں آتے۔"
انہوں نے کہا "طالبان حکام افغانستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا رہے ہیں۔"
طالبان نے دسمبر میں انسانی ہمدردی سے متعلق امدادی گروپوں کے لیے کام کرنے والی زیادہ تر خواتین کو کام سےروکنے کے بعد، اس ماہ کے شروع میں اقوامِ متحدہ کے لیے کام کرنے والی افغان خواتین پر بھی پابندی کا نفاذ شروع کر دیا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
سلامتی کونسل کی قرارداد میں افغانستان کی معیشت کو درپیش اہم چیلنجوں سے نمٹنے کی ضرورت کو بھی تسلیم کیا گیا ہے، جس میں افغانستان کے مرکزی بینک کے اثاثوں کو افغان عوام کے فائدے کے لیے استعمال کرنا شامل ہے۔
امریکہ نے اپنے مرکزی بینک میں موجود افغانستان کے اربوں کے ذخائر کو منجمد کر دیا تھا۔ بعدازاں آدھی رقم سوئٹزرلینڈ کے ایک ٹرسٹ فنڈ میں منتقل کر دی تھی جس کی نگرانی امریکی، سوئس اور افغان ٹرسٹیز کر رہے تھے۔
اقوامِ متحدہ میں چین کے نائب سفیر گینگ شوانگ نے کونسل کو بتایا کہ "آج تک، ہم نے صرف اثاثوں کو ایک اکاؤنٹ سے دوسرے اکاؤنٹ میں منتقل ہوتا دیکھا ہے، لیکن ایک پیسہ بھی افغان عوام کو واپس نہیں کیا گیا۔"
اقوامِ متحدہ میں روس کے سفیر واسیلی نیبنزیا نے بھی افغان مرکزی بینک کے اثاثوں کی واپسی کا مطالبہ کیاہے۔
'یہ افغانستان کا اندرونی معاملہ ہے'
طالبان نے اقوامِ متحدہ کی قرارداد پر ردِعمل دیتے ہوئے کہا کہ یہ افغانستان کا اندرونی سماجی معاملہ ہے جس کا دنیا کے دیگر ممالک پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ طالبان خواتین کے حقوق کے لیے پرعزم ہیں، لیکن اس معاملے پر اختلافِ رائے پر سیاست نہیں ہونی چاہیے۔
اس خبر کے لیے بعض معلومات خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' سے لی گئی ہیں۔