اقوامِ متحدہ نے گزشتہ 50 برسوں میں بد ترین خشک سالی کا شکار صومالیہ کے دو جنوبی علاقوں کو قحط زدہ قرار دے دیا ہے۔
نیروبی میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے عالمی ادارے کے ترجمان مارک بوڈین نے کہا کہ صومالیہ کے علاقوں نکول اور زیریں شبیلے میں قحط کی صورتِ حال جنم لے چکی ہے۔
دریں اثناء امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نے اپنے ایک بیان میں قرنِ افریقہ میں خشک سالی اور اقوامِ متحدہ کی جانب سےصومالی علاقوں کو قحط زدہ قرار دینے کے اعلان پر اپنی گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
اس سے قبل منگل کو صومالیہ کے صدر شیخ شریف احمد نے دارالحکومت موغادیشو میں قائم خشک سالی کے متاثرین کے ایک کیمپ کا دورہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ غذائی اشیاء کی کمی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ ملک میں قحط کی سی صورتِ حال ہے۔
پناہ گزینوں سے متعلق اقوامِ متحدہ کے ادارے 'یو این ایچ سی آر' نے کہا ہے کہ اسے صومالیہ میں متاثرین کو درکار بڑے پیمانے پر امداد فراہم کرنے سے قبل مقامی شدت پسند گروہوں سے سکیورٹی کی مزید یقین دہانیاں درکار ہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے صومالی شدت پسند گروپ 'الشباب' نے اعلان کیا تھا کہ وہ علاقے میں امدادی ایجنسیوں کی سرگرمیوں کا خیرمقدم کرے گا۔ گروپ نے گزشتہ برس عالمی امدادی تنظیموں کو اپنے زیرِ قبضہ وسطی اور جنوبی صومالی علاقوں میں کام کرنے سے روک دیا تھا۔
'یو این ایچ سی آر' کے ترجمان ایڈرین ایڈورڈز نے 'وائس آف امریکہ' کو بتایا کہ ان کی تنظیم کو علاقے میں اپنی موجودگی کم رکھتے ہوئے مقامی معاونین کے ذریعے امدادی سرگرمیاں انجام دینا ہوں گی تاکہ ا'لشباب' اور دیگر مسلح گروپوں کا نشانہ بننے سے بچا جاسکے۔
امریکہ نے گزشتہ روز کہا تھا کہ وہ 'الشباب ' کی جانب سے امدادی تنظیموں کو صومالیہ میں کام کرنے کی اجازت دینے سے متعلق وعدے پر عمل درآمد کا جائزہ لے رہا ہے۔
افریقہ کے لیے امریکہ کے اعلیٰ ترین سفارت کار جانی کارسن کے بقول 'الشباب' کی کارروائیاں صومالی باشندوں کو خوفزدہ کر رہی ہیں۔
صومالیہ گزشتہ کئی برسوں سے لاقانونیت اور خانہ جنگی کا شکار ہے جہاں ا'لشباب' اقوامِ متحدہ کے زیرِسایہ قائم صومالی حکومت کو اقتدار سے بے دخل کرکے ملک میں سخت شرعی نظام نافذ کرنے کے لیے مسلح کارروائیوں میں مصروف ہے۔