نیویارک میں واقع اقوامِ متحدہ کے صدر دفتر کے سامنے گزشتہ 17 روز سے تین تبتی باشندوں بھوک ہڑتال پر بیٹھے ہوئے ہیں۔
ان مظاہرین کا کہنا ہے کہ وہ اس وقت تک اپنا احتجاج ختم نہیں کریں گے جب تک عالمی ادارہ انسانی حقوق اور آزادیوں کی صورتِ حال کا جائزہ لینے کے لیے ایک تحقیقاتی مشن تبت نہیں بھیجتا۔
یہ تینوں بھوک ہڑتالی عالمی ادارے کے دفتر کے سامنے واقع ایک چھوٹے سے باغیچے میں چین کے زیرِ انتظام تبت کے لہراتے جھنڈوں کے سائے تلے براجمان ہیں۔
بائیس فروری کو اپنے احتجاج کا آغاز کرنے والے ان تینوں افراد نے نہایت ثابت قدمی سے موسم کی سختیوں کو جھیلا ہے اور کڑکڑاتی سردی، تیز ہوا، بارش اور بےموسم کی چلچلاتی دھوپ کے باوجود اپنا احتجاج جاری رکھا ہے۔
یہ بھوک ہڑتالی گزشتہ دو ہفتوں سے صرف پانی پر گزارا کر رہے ہیں اور تیزی سے گرتی اپنی صحت کو موسم کے اثرات سے بچانے کے لیے جیکٹوں اور سوئیٹروں میں لپٹے ہوئے ہیں۔
ان مظاہرین میں سے ایک تبت کے معروف بھکشو 31 سالہ شنگزا رنپوچ ہیں جو اپنا آبائی وطن چھوڑ کر ان دنوں بھارت میں پناہ گزین ہیں اور احتجاج میں شریک اپنے ہم وطنوں سے اظہارِ یکجہتی کے لیے خاص طور پر نیو یارک آئے ہیں۔
'وائس آف امریکہ' سے گفتگو میں رنپوچ نے بتایا کہ انہوں نے اقوامِ متحدہ کو پانچ مطالبات پر مشتمل درخواست روانہ کی ہے جس میں عالمی ادارے سے تبت کی سنگین صورتِ حال کا جائزہ لینے کے لیے تحقیقاتی مشن روانہ کرنے کی اپیل بھی شامل ہے۔
تبت کے سیاسی کارکن چین پر علاقائی ثقافت، مذہب اور دیگر آزادیوں پر پابندیاں لگانے کا الزام عائد کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ چین علاقے کی سنگین صورتِ حال سے مزید روگردانی نہیں کرسکتا اور یہ کہ وہ ہر صورت اپنے حقوق کے لیے جدوجہدجاری رکھیں گے۔
اقوامِ متحدہ نے بھوک ہڑتالیوں کی جانب سے بھیجی گئی درخواست موصول ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ادارہ اس پر غور کر رہا ہے۔
تحقیقاتی مشن کے علاوہ بھوک ہڑتالیوں نے عالمی ادارے سے مظاہرین کے بقول، تبت میں نافذ غیر اعلانیہ مارشل لا کے خاتمے کے لیے چین پر دبائو ڈالنے ، بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کو علاقے تک رسائی دینے اور تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی کے مطالبات بھی کیے ہیں۔
بھوک ہڑتال میں امریکی ریاست منی سوٹا کے رہائشی 69 سالہ ڈورجی گیالپو بھی شریک ہیں جنہوں نے نقاہت زدہ آواز میں 'وائس آف امریکہ' کو بتایا کہ وہ اپنے مقصد کے لیے جان کی قربانی تک دینے پر تیار ہیں۔
انہوں نے اقوامِ متحدہ پر زور دیا کہ وہ تبت میں انسانی حقوق کی صورتِ حال بہتر بنانے کے لیے مداخلت کرے۔
بھوک ہڑتالی کیمپ کے تیسرے شریک 39 سالہ ییشی ٹینزنگ ہیں جو بھارت میں جرسیاں فروخت کرتے ہیں اور احتجاج میں شرکت کے لیے خاص طور پر امریکہ آئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اس بھوک ہڑتال کے ذریعے وہ نہ صرف تبت کی صورتِ حال کو اجاگر کرنا چاہتے ہیں بلکہ ان کے بقول اس صورتِ حال کو حل کرنے کے بھی خواہاں ہیں۔
نوجوان تبتیوں کی تنظیم 'تبتن یوتھ کانگریس' سے منسلک پینپا سیرنگ بھی بھوک ہڑتالیوں کے مطالبات سے متفق ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس طرح کی سرگرمیوں کے ذریعے تبتی تارکینِ وطن ملک میں موجود اپنے ہم وطنوں کی آواز بننے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ان کے بقول بیرونِ ملک مقیم تبتی باشندوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ مشکل صورتِ حال سے دوچار اپنے ہم وطنوں کی مدد کریں اور ان کے لیے جانیں تک نچھاور کرنے کو تیار رہیں۔
انہیں امید ہے کہ دنیا جلد بیدار ہوگی اور تبت کی صورتِ حال پر توجہ دے گی۔