تبت کے روحانی لیڈر دلائی لامہ نے جنوبی افریقہ کے آرچ بشپ ڈسمنڈ ٹوٹو کا بھارت کےشمالی شہر دھرم شالہ میں خیرمقدم کیا جہاں مسٹر ٹوٹو نے چین سے اپیل کی کہ وہ تبت میں اپنی پالیسیاں تبدیل کرے ۔
جمعرات کےر وز دلائی لامہ نے اپنے ساتھی نوبیل انعام یافتہ آرچ بشپ ڈسمنڈ ٹوٹو سے اپنی دعاؤں میں تبتیوں کو یاد رکھنےکی درخواست کی ۔ ان کا کہناتھا کہ ہم تبتی ایک مشکل دور سے گزر رہے ہیں اور تبتی ثقافت کو، جس میں رحم دلی کا عنصر نمایاں ہے، در حقیقت بہت سی دشواریوں کا سامنا ہے۔
تبت کے روحانی لیڈر چینی فورسز کی جانب سے کئی ماہ پر محیط پکڑ دھکڑ کا حوالہ دے رہے تھے ۔ تبت کے جلاوطن لوگوں کا کہنا ہے کہ حالیہ ہفتوں میں کم از کم چھ مظاہرین گولیوں کا نشانہ بنے ہیں۔
چینی حکومت نے ایک تبتی کی ہلاکت کا اعتراف کیا ہےجسے انہوں نے ایک بلوائی قرار دیتے ہوئے کہا کہ خصوصی طور سے تربیت یافتہ گروہ یہ مظاہرے بڑی احتیاط سے ترتیب دے رہے ہیں اور وہ پولیس کے خلاف تشدد کا استعمال بھی کر چکے ہیں۔
تبتیوں کا کہنا ہے کہ چین ایک ایسی پالیسی پر کاربند ہے جس کے تحت تبت میں منظم طریقے سے بڑی تعداد میں غیر تبتی چینی تارکین وطن کوبسایا جارہا ہے جو ان کے خلاف اکثر اوقات امتیازی سلوک روا رکھتے ہیں۔ دلائی لامہ کی تصاویر پر پابندی ہے اور بہت سے بھکشوؤں کا کہنا ہے کہ اگر وہ قوم پرستی پر مبنی ، تعلیم نو کے پروگراموں میں شریک نہ ہوں جس کا مقصد انہیں اپنی روائتی ثقافت سےدور کرنا ہے، ، تو انہیں سزا کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔
مسٹر ٹوٹو نے چین سے اپیل کی کہ وہ تبت پر اپنی گرفت نرم کر دے ۔ ان کا کہناتھا کہ ہم بیجنگ کے راہنماؤں سےدرخواست کرتے ہیں کہ وہ برائے مہربانی تبت کوخود مختارہونے دیں جس کی اجازت پیپلز ری پبلک آف چائنا کا آئین دیتا ہے ۔
انہوں نے چین پر زور دیا کہ وہ تبت کے روحانی لیڈر کو اپنے وطن واپس جانے کی اجازت دے۔ انہوں نے کہا کہ خدا وہ دن جلد لائے جب ہم ایک آزاد تبت میں داخل ہوں گے۔
دلائی لامہ چین کے خلاف ایک ناکام شورش کے بعد 1959ء میں بھارت فرار ہوگئے تھے ۔ جس کے بعد ان کے ہزاروں تبتی حامی بھارت چلے گئے۔
دھرم شالہ میں قائم تبتی جلاوطن انتظامیہ کے منتخب وزیر اعظم لوبسانگ سانگے کہتے ہیں کہ انہیں خدشہ ہے کہ چین میں جاری پکڑ دھکڑ کی کارروائیوں میں اضافہ ہو سکتا ہے ۔
ان کا کہناتھا کہ ہمیں ایسی خبریں ملی ہیں کہ خود کار مشین گنوں سے لیس چینی اہل کاروں کے سینکڑوں قافلے تبت کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ 22 فروری کو تبت کے سال نو کے موقع پر بہت سے اجتماع ہوں گے اور ہمیں ڈر ہے کہ اس موقع پر بہت سے تبتیوں کو تکلیف دہ تجربات کا سامنا ہو سکتا ہے ۔
سانگے نے یہ ان خیالات کا اظہار ا س ہفتے اس شب بیداری کی دعائیہ تقریب میں کیا ، جو گذشتہ سال چین کی پالیسیوں کے خلاف احتجاجاً خود سوزی کرنے والے کم ازکم 19 تبتیوں کے یاد میں منعقد کی گئی تھی ۔