دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی کرونا وائرس سے معاشی سست روی اور شرح نمو تاریخی زوال کا شکار ہے۔ ماہرین معاشیات کے مطابق بے روزگاری کی شرح بھی مسلسل بڑھ رہی ہے۔
ماہرین معاشیات کے خیال میں بے روزگاری کی موجودہ لہر خطرناک رجحان کی جانب ایک اشارہ ہے۔
کئی ماہرینِ معاشیات اس بارے میں جو اعداد و شمار پیش کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق ملک میں کُل افرادی قوت میں سے بے روزگاری کا شکار ہونے والے افراد کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
سابق وفاقی وزیرِ خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا کا کہنا ہے کہ ملک میں اس وقت لگ بھگ 6 کروڑ 70 لاکھ افرادی قوت ہے۔ جس میں سے اگر ایک کروڑ 85 لاکھ لوگ بے روزگار ہوجائیں تو یہ تعداد 25 فی صد کے قریب بنتی ہے اور ملکی تاریخ میں اس سے قبل بے روزگار لوگوں کی اتنی بڑی تعداد کا کبھی اندازہ نہیں لگایا گیا۔
وائس آف امریکہ سےگفتگو میں ڈاکٹر حفیظ پاشا کا کہنا تھا پاکستان اس وقت معاشی جمود اور افراطِ زر کی بڑھتی ہوئی کیفیت کا شکار ہے۔
ان کے خیال میں معاشی جمود کے نتیجے میں بے روزگاری اور افراطِ زر میں حالیہ اضافے کے باعث ایک کروڑ 70 لاکھ کے قریب گھرانے غربت کی لکیر سے نیچے چلے جائیں گے اور ایسا ہماری تاریخ میں کبھی نہیں ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ حکومت نے وبائی مرض کے بعد معاشی صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے ملک کے انتہائی غریب ایک کروڑ 50 لاکھ افراد کو 'احساس پروگرام' کے ذریعے 12 ہزار روپے رقم فراہم کی۔ ان کے مطابق اس پروگرام پر عمل درآمد حکومت کی بڑی کامیابی ہے۔
تاہم ان کے خیال میں اس وقت اصل مسئلہ یہ ہے کہ حکومت کے پاس اب پیسے نہیں ہیں۔ جب کہ حکومت کے محصولات اکھٹے کرنے میں بھی کوئی خاص اضافہ دیکھنے میں نہیں آیا۔
ان کے بقول مالی سال 21-2020 کے بجٹ میں کرونا وبا سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے انتہائی غریب افراد کے لیے کوئی گرانٹ یا سبسڈی نہیں رکھی گئی۔
ان کے خیال میں ایک جانب موجودہ معاشی صورتِ حال میں ایسے ضرورت مند افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ تو دوسری جانب احساس پروگرام کے تحت فائدہ اٹھانے والوں کی تعداد میں کمی لائی جا رہی ہے۔ جس سے ملکی حالات مزید خراب ہونے کا اندیشہ ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
انہوں نے کہا کہ ایک جانب لوگ پہلے ہی پریشان ہیں تو دوسری جانب وبا، بے روزگاری اور افراطِ زر کا مسئلہ درپیش ہے۔ گزشتہ 40 برس کے دوران کبھی ایسے برے حالات نہیں دیکھے گئے۔
وبا سے بے روزگاری کی شرح بڑھنے کا اندیشہ
پاکستان کے ادارہ شماریات کی جانب سے ملازمتوں کے رحجانات سے متعلق جاری کردہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان میں بے روزگاری کی شرح 2006 اور 2007 میں 5.1 فی صد ریکارڈ کی گئی تھی۔ جو 2012 اور 2013 میں بڑھ کر 6 فی صد ہو گئی۔
2017 اور 2018 کے اختتام پر یہ شرح 5.7 فی صد ریکارڈ کی گئی۔ جب کہ 2019 میں ایک بار پھر یہ شرح 7 فی صد کے اردگرد ریکارڈ کی گئی۔ تاہم 2020 اور 2021 میں وبائی مرض کی وجہ سے اس میں کئی گنا اضافے کے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔
اعداد و شمار یہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان میں ان برسوں کے دوران برسرِ روزگار افراد کی شرح جنوبی ایشیا اور مشرقی ایشیائی ممالک سے کم ریکارڈ کی گئی ہے۔
پاکستان میں معاشی میدان میں تحقیق کے معتبر سمجھے جانے والے ادارے ‘انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس’ کے اندازے کےمطابق ملک میں کرونا وائرس کے باعث خدشہ ہے کہ رواں سال ایک کروڑ 90 لاکھ کے قریب لوگ بے روزگار ہو سکتے ہیں۔
اس ادارے کے مطابق ان میں سے ایک کروڑ 20 لاکھ افراد پنجاب، تقریباً 40 لاکھ تک سندھ، 20 لاکھ خیبر پختونخوا جب کہ 10 لاکھ سے کچھ کم افراد بلوچستان میں بے روزگار ہو سکتے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ کے مطابق روزانہ کی بنیاد پر کام کرنے والے یعنی دیہاڑی دار افراد سب سے زیادہ متاثر ہو سکتے ہیں۔
پاکستان میں اس طرح کے ملازمت پیشہ افراد کی تعداد 50 فی صد سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔ ان میں سے سب سے زیادہ تعداد صنعتی شعبے میں کام کرنے والے افراد کی ہے۔
اس کے علاوہ زراعت سے وابستہ افراد اور پھر مختلف خدمات سے وابستہ ملازمین بھی بھاری تعداد میں متاثر ہو سکتے ہیں۔
انسٹی ٹیوٹ کے ماہرین کے مطابق کسی بھی معاشی پیکیج میں ان افراد کو فوقیت دینا ضروری ہے۔
کچھ اسی طرح کے اعداد و شمار ‘پاکستان اکنامک سروے 2019 اور 2020' میں بھی دیے گئے تھے۔ جس کے تحت مکمل لاک ڈاؤن سے محدود لاک ڈاؤن تک ایک کروڑ 85 لاکھ سے زائد افراد کے بے روزگار ہونے کا خدشہ ظاہر کیا گیا تھا۔
'صرف کرونا وائرس ہی بے روزگاری کی وجہ نہیں'
‘پیکیجنگ انڈسٹری’ سے تعلق رکھنے والے معروف تاجر راشد صدیق کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ وبا کی موجودہ صورتِ حال میں بعض شعبہ جات سے لوگوں کو نکالا گیا۔ جس کی وجہ سے بے روزگاری بڑھی۔
ان کے بقول لیکن بے روزگاری کی حالیہ لہر کا تعلق صرف کرونا سے نہیں جوڑا جا سکتا۔ ملک کی معاشی حالت کرونا سے پہلے بھی کوئی قابل قدر نہیں تھے۔
ان کا کہنا ہے کہ پیداواری شعبے کا براہِ راست انحصار ملک میں بنیادی ضروریات فراہم کرنے سے ہے۔ لیکن پانی، بجلی اور گیس جیسی اہم چیزیں نہ صرف ملنا مشکل ہیں۔ بلکہ وہ مہنگی اور بعض اوقات دسترس سے باہر ہوتی ہیں۔ ایسے میں بین الاقوامی منڈی میں ہماری مصنوعات دیگر ممالک کی مصنوعات سے مہنگی ملتی ہیں جس سے خریدار ایسی اشیا سے گریز کرتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک میں صنعت کاروں اور برآمد کنندگان کو گیس کی لوڈ شیڈنگ، مہنگی بجلی اور پانی کی کمی جیسے مسائل کاسامنا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کا کہنا ہے کہ پاکستانی برآمد کنندگان کے آرڈرز منسوخ ہونے کی بڑی وجہ وقت پر مصنوعات کی عدم فراہمی ہے۔ جب صنعت کاروں اور برآمد کنندگان کو ہفتے میں صرف پانچ دن گیس ملے گی جب کہ مہنگی بجلی کے حصول میں بھی تواتر کے ساتھ لوڈ شیڈنگ ہوگی تو آرڈر بھلا کیسے پورے ہو سکتے ہیں؟
'خرچے بڑھ گئے ہیں جب کہ آمدنی کم ہوگئی ہے'
'انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن' (آئی بی اے) میں ایسوسی ایٹ ڈین اور ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر ہما بقائی کا کہنا ہے کہ پاکستان جیسے ممالک میں تاریخی طور پر سماجی تحفظ ریاستی اقدام کے بجائے نجی اقدام کے طور پر ہی دیکھا گیا ہے۔
ان کے بقول حکومت کے شروع کیے گئے احساس پروگرام جیسے اقدامات کی پہنچ کم بھی ہے۔ کمزور بھی اور غیر پائیدار بھی۔
انہوں نے بتایا کہ بے روزگاری کی حالیہ لہر سے یقینی طور پر جرائم کی شرح بڑھے گی۔ لیکن ان کے خیال میں اس وقت حکومت کے پاس فی الحال اس سے نمٹنے کے لیے کوئی ہمہ جہتی پالیسی موجود نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کرونا سے پیدا شدہ معاشی صورتِ حال میں گھروں کے خرچے بڑھ گئے ہیں جب کہ آمدنی کم ہوگئی۔
'اچھی خبر، نچلے طبقے کی آمدن بحال ہونا شروع ہو گئی ہے'
ڈاکٹر ہما بقائی نے ایک اور سروے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ خوش قسمتی سے پاکستان کو کرونا وائرس کی صورتِ حال نے اتنا متاثر نہیں کیا جتنا دیگر ممالک ہوئے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کا کہنا تھا کہ سروے سے واضح ہوتا ہے کہ بے روزگاری ضرور بڑھی ہے۔ لیکن پاکستان میں انتہائی غریب ترین طبقے کی آمدنی 90 فی صد بحال ہو گئی ہے۔ جب کہ اس سے اوپر والے طبقے کی بھی 70 فی صد آمدنی بحال ہونے کے اشارے ملے ہیں۔
ڈاکٹر ہما بقائی کے مطابق موجودہ بے روزگاری کی لہر کے نتیجے میں دنیا پر یہ حقیقت بھی عیاں ہوگی کہ لالچ پر مبنی سرمایہ دارانہ نظام جو صرف منافع کے لیے کام کرتا ہے، اس نے ہمیں مزید تباہی کا شکار بنادیا ہے۔
ان کے بقول اگرچہ اس کے نتیجے میں دنیا سرمایہ دارانہ نظام سے اجتناب تو نہیں کرے گی اور وہ اب بھی دنیا کا معاشی منترا تو رہے گا۔ لیکن اس کے نتیجے میں معاشی اور معاشرتی تحفظ کی اہمیت بڑھے گی۔
ان کے خیال میں چاہے وہ دولت کی تقسیم سے متعلق ہوں یا پھر موسمی تبدیلیوں سے بچاؤ سے متعلق خیالات ہوں، انہیں مستقبل میں زیادہ تقویت حاصل ہونے کی امید ہے۔
'ٹیکس شرح کم کرکے کم آمدنی والے طبقے کو بچایا جائے'
سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا کے مطابق اس مشکل صورتِ حال سے نکلنے کا راستہ یہ ہے کہ آئی ایم ایف کو اس بات پر قائل کیا جائے کہ وہ پاکستان کے ساتھ معطل معاشی پروگرام ایک بار پھر شروع کرے۔ لیکن انہیں ٹیکسز کا بوجھ بڑھانے جیسی شرائط رکھنے سے اجتناب پر راضی کیا جائے۔ کیوں کہ وبا سے پیدا شدہ معاشی صورتِ حال میں ایسا ممکن نہیں۔
ان کے خیال میں حکومت کو وبا کے دوران معاشی صورتِ حال بہتر کرنے کے تناظر میں ایک بڑے ریلیف پروگرام ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ جس میں انتہائی غریب ترین افراد کو مالی امداد کے ساتھ معیشت کا پہیہ چلانے کے لیے ٹیکسز میں رعایت دی جائے۔ خاص طور پر وہ ٹیکسز جو کھانے پینے کی اشیا پر عائد ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو چاہئے کہ وہ ٹرانسپورٹ کے اخراجات میں کمی لائے تاکہ اس کا اثر اشیا کی قیمتیں کم ہونے پر نظر آئے۔ اسی طرح بجلی کی قیمتیں کم کی جائیں اور انتہائی کم استعمال کرنے والوں کے لیے بجلی کے بلز میں رعایت دی جائے۔
بے روزگاری کی موجودہ لہر معاشی سُست روی ہے
تاہم حکومت کی جانب سے بے روزگاری کی وجہ کرونا وائرس سے پیدا شدہ معاشی صورتِ حال کو قرار دیا جاتا رہا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
وزیرِ اعظم عمران خان اوران کی معاشی ٹیم وبا کے دوران انتہائی غریب طبقے کی مالی مدد کے لیے ترتیب دیے گئے احساس پروگرام کے تحت ایک کروڑ 50 لاکھ افراد کو 12 ہزار روپے رقم فراہم کرنے کو اپنی حکومت کی اہم کامیابی قرار دیتے ہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ تعمیراتی صنعت کو فروغ دینے کے لیے حکومت کی جانب سے دی گئی رعایت غیر ہنرمند بے روزگار افراد کے لیے نئے مواقع پیدا کر رہی ہے۔ جس سے بے روزگاری دور کرنے میں مدد ملے گی۔ اس کےساتھ ہی وزیرِ اعظم عمران خان نے کرونا کی دوسری لہر میں لاک ڈاؤن دوبارہ نافذ کرنے کے امکانات کو مسترد کر دیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ حکومت کی معاشی پالیسی کا اصل مقصد معاشرے کے غریب اور کم آمدن والے طبقات کو معاشی اور معاشرتی تحفظ فراہم کرنا ہے۔
ادھر ‘اسٹیٹ بینک آف پاکستان’ کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے اعلان کردہ معاشی پیکیج کے تحت روزگار اسکیم میں ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے اب تک 238 ارب روپے جاری کیے جا چکے ہیں۔ جس سے اب تک 2 ہزار 958 کاروباری فرمز کے 16 لاکھ 95 ہزار سے زائد ملازمین مستفید ہو چکے ہیں۔