افغانستان میں یورپی یونین کے نمائندہٴ خصوصی توماس نیکلاسن نے کہا ہے کہ خوست اور کنڑ میں کی گئی فضائی کارروائی میں 20 بچے ہلاک ہوئے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے ادارے یونیسیف نے بھی بمباری میں بچوں کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔
سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں یورپی یونین کے عہدے دار کا کہنا تھا کہ فضائی کارروائی میں عام شہریوں کی ہلاکت پر انہیں شدید تشویش ہے۔
واضح رہے کہ خوست اور کنڑ میں 16 اپریل کو پاکستان سے ملحقہ افغان علاقوں کنڑ اور خوست میں فضائی کارروائی کی گئی تھی جس کا الزام افغان طالبان نے پاکستان پر عائد کیا تھا۔ تاہم پاکستان کی جانب سے تاحال اس حملے کی تردید یا تصدیق سامنے نہیں آئی۔
توماس نیکلاسن نے بیان میں مزید کہا کہ عام شہریوں، خاص طور پر بچوں خواتین اور نقل مکانی کرنے والوں کی حفاظت بین الاقوامی قوانین کی اہم بنیاد ہیں۔
قبل ازیں اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسف کے افغانستان میں نمائندے محمد ایویا نے بھی تصدیق کی تھی کہ افغانستان کے صوبہ خوست اور کنڑ میں ہونے والے حملوں میں 20 بچے بھی نشانہ بننے والوں میں شامل تھے۔
انہوں نے سوشل میڈیا پر ایک بیان میں مزید کہا کہ خوست میں مارے جانے والے بچوں میں 12 لڑکیاں اور تین لڑکے شامل ہیں جب کہ کنڑ میں تین بچیوں اور دو بچوں کی اموات ہوئی تھیں۔
حملوں کے حوالے سے ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ بچے اس وقت نشانہ بنے جب وہ اپنے گھروں میں سو رہے تھے۔
یونیسف کے نمائندے نے ان اموات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے مزید کہا کہ اقوامِ متحدہ کی ٹیمیں متاثر علاقے میں لوگوں کی مدد کر رہی ہیں۔ یہ ٹیمیں نشانہ بننے والے علاقے میں لوگوں کو صحت سے متعلق معاونت اور خوراک کی فراہمی کے ساتھ ساتھ نفسیاتی طور پر حوصلہ بڑھانے میں مدد کر رہی ہیں۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ بچوں کے خلاف ہر قسم کے تشدد کو ترک کر دینا چاہیے اور فریقین کو بچوں کو محفوظ رکھنے کے لیے پوری صلاحیت استعمال کرنی چاہیے۔
واضح رہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت نے پاکستان پر الزام عائد کیا تھا کہ اس کے لڑاکا طیاروں نے 16 اپریل کو سرحدی صوبوں خوست اور کنڑ میں بمباری کی۔ طالبان حکومت نے افغانستان میں تعینات پاکستان کے سفیر کو بھی طلب کر کے احتجاج ریکارڈ کرایا تھا۔
ہفتے کی صبح ہونے والی اس بمباری کے نتیجے میں 30 سے زائد افراد ہلاک جب کہ متعدد زخمی ہونے کی رپورٹس سامنے آئی تھیں بعد ازاں ہلاکتوں کی تعداد 47 بتائی گئی تھی۔
ان حملوں سے قبل افغانستان سے متصل پاکستان کے قبائلی اضلاع میں پاکستانی سیکیورٹی فورسز پر مختلف حملوں میں نو اہل کار ہلاک ہوئے تھے۔
خوست اور کنڑ کے حملوں کے حوالے سے پاکستان میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے ایک بیان میں دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان کی فوج نے افغانستان میں مہاجر کیمپ پر حملہ کیا۔
حال ہی میں پاکستان کی فوج کے ترجمان نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ رواں سال جنوری سے مارچ کے درمیان سیکیورٹی فورسز پرحملوں اور جھڑپوں میں افسران سمیت 97 افراد ہلاک ہوئے۔ جب کہ سیکیورٹی فورسز کی کارروائیوں میں 128 دہشت گرد مارے گئے۔
Your browser doesn’t support HTML5
پاکستان کی فوج کی جانب سے افغانستان کے صوبہ خوست اور کنڑ میں ہونے والے حملوں کے حوالے سے تاحال کوئی بیان سامنے نہیں آیا البتہ اتوار کو پاکستان کے دفترِ خارجہ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ کچھ عرصے سے افغانستان سے پاکستان کے سیکیورٹی فورسز پر ہونے والے حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔
دفترِ خارجہ کے مطابق حالیہ چند ماہ کے دوران پاکستان نے متعدد بار افغانستان سے بارڈر محفوظ بنانے کی درخواست کی کیوں کہ دہشت گرد افغان سرزمین کا استعمال کرتے ہوئے پاکستان کی افواج کو مسلسل نشانہ بنا رہے ہیں۔
پاکستان کے دفتر خارجہ کے بیان میں بھی افغانستان کی جانب سے لگائے جانے والے جنگی طیاروں کی بمباری کے الزامات کے حوالے سے ذکر نہیں تھا۔
دوسری جانب پاکستان کی قومی اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے شمالی وزیرستان سے رکن اسمبلی اور پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے رہنما محسن داوڑ نے جیٹ طیاروں کی بمباری پر شدید تنقید کی اور اس کارروائی کی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔
قومی اسمبلی میں خطاب میں محسن داوڑ کا کہنا تھا کہ اس حملے میں 40 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ ایسے حملوں کو روکنا ہو گا۔
ہفتے کو ہونے والے فضائی حملوں کے بعد پیر کو طالبان کی جانب سے سخت بیانات سامنے آئے تھے۔ طالبان نے پاکستان کو سخت الفاظ میں تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ مقابلہ کرسکتے ہیں۔
پیر کو طالبان کے نائب آرمی چیف حاجی مالی خان نے خوست کا دورہ کیا اور فضائی حملوں سے متاثرہ علاقے کا جائزہ لیا۔ اس موقع پر انہوں نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ افغان بزدل نہیں ہیں۔ امریکہ کے پاس بھی ایسی ہی فضائی قوت تھی لیکن طالبان نے انہیں شکست سے دوچار کیا۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بھی پاکستان کو آئندہ ایسے اقدامات سے باز رہنے کے لیے خبردار کیا۔
ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ اگر طالبان امریکہ سے جنگ لڑ سکتے ہیں تو پاکستان کے خلاف بھی کھڑے ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے پاکستان کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ افغان سرزمین پر حملے کر کے طالبان کے صبر کا امتحان نہ لے، ورنہ طالبان بھی جواب دیں گے۔