سیکورٹی کے غیر معمولی انتظامات سے ’عام آدمی‘ متاثر

’سات محرم کو جب دکانیں اور بینک کی برانچیں سیل ہوئیں تو بھی وہ اندر ہی تھا۔ قریب ہی اس کا گھر ہے اور دوسرا گارڈ اسے پچھلی طرف کھلنے والی ایک تنگ کھڑکی سے کھانا پینا دیتا رہے گا۔ لیکن، وہ باہر نہیں نکل سکتا، برانچ کو پولیس نے سیل کردیا ہے۔ پچھلے سال بھی ایک گارڈ ایسے ہی اندر بند ہوگیا تھا اور ۔۔

پاکستان میں محرم کے موقع پر جلوسوں کی حفاظت کے لئے اپنائے جانے والے سیکورٹی کے غیر معمولی اور انتہائی سخت انتظامات سے عام آدمی بری طرح متاثر ہونے لگا ہے۔خدشہ یہ ہے کہ اگر ہر سال ان میں اسی طرح اضافہ ہوتا رہا تویہ عوامی برداشت سے باہر ہوجائیں گے۔

برداشت کی حد
سول اسپتال کراچی، شہر کے بڑے اسپتالوں میں سے ایک ہے۔ یہ ایم اے جناح روڈ سے جڑی ایک بغلی شاہراہ پر ڈاوٴمیڈیکل کالج کے قریب واقع ہے۔ کالج اور اسپتال کے درمیان ایک نجی بینک کی برانچ بھی ہے جو سات محرم کی رات سڑک کے کنارے آباد تمام دکانوں، دیگر بینکوں اور دفاترکی طرح ہی سیل کردی گئی۔

اس برانچ اور دیگر دکانوں میں فرق صرف یہ ہے کہ مبینہ طور پر اس برانچ کا ایک سیکورٹی گارڈ بھی اندر ہی بند ہوگیا ہے جسے گیارہ محرم کی صبح ہی باہر نکلنے کا موقع ملے گا۔

بینک کے ایک ملازم نے وائس آف امریکہ کو اپنی شناخت ظاہر نہ کرتے ہوئے بتایا ’بینک کی تقریباً ہر برانچ میں گارڈ رات بھر ڈیوٹی پر موجود ہوتے ہیں۔ انہی گارڈز میں سے ایک گارڈ یہاں بھی ڈیوٹی دیتا ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’سات محرم کو جب دکانیں اور بینک کی برانچیں سیل ہوئیں تو بھی وہ اندر ہی تھا۔ قریب ہی اس کا گھر ہے اور دوسرا گارڈ اسے پچھلی طرف کھلنے والی ایک تنگ کھڑکی سے کھانا پینا دیتا رہے گا۔ لیکن، وہ باہر نہیں نکل سکتا، برانچ کو پولیس نے سیل کردیا ہے۔ پچھلے سال بھی ایک گارڈ ایسے ہی اندر بند ہوگیا تھا اور اسے بھی سات محرم سے لیکر گیارہ محرم تک اندر بند رہنا پڑا تھا۔‘

سیل کرنے کی وجہ نو اور دس محرم کو یہاں سے گزرنے والے ماتمی جلوسوں کی سیکورٹی ہے۔ ملازم کے مطابق ’گارڈ اپنی مرضی سے اندر سیل ہوا ہے‘۔

لیکن، حقیقت یہ ہے کہ ڈیوٹی کے تقاضوں کو پورا کرنا اس کی مجبوری ہے۔ غور طلب ہے کہ اس دوران اگر اس کے گھر پر کوئی ایمرجنسی ہوجائے یا خود اس کی طبیعت خراب ہوجائے تو بھی اسے اپنی مرضی سے باہر کوئی نہیں نکال سکتا۔

پرانے دور جیسا ایک دن


سنہ 2015 کے جدید دور میں بھی اگر آپ سے کوئی ایسے شہر کی بات کرے جہاں اب بھی فون نہ ہوں، انٹرنیٹ وائی فائی سسٹم بند ہو، موٹر سائیکل پر دو افراد بھی ایک ساتھ نہ بیٹھ سکیں۔۔تو سمجھ لیجئے یہ کراچی کی بات ہو رہی ہے ۔۔ملک کے سب سے بڑے شہر کی بات۔

محرم الحرام میں سیکورٹی خدشات کے پیش نظر 9 محرم یعنی جمعہ کو ملک کے بیشتر شہروں کی طرح کراچی میں بھی صبح سے رات 10 بجے تک موبائل فون سروس اور وائی فائی انٹرنیٹ سروس معطل رہی اور یوں پاکستان کا بیرونی دنیا سے رابطہ مکمل طور پر کٹارہا۔

بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ عام لوگوں کو اس دوران جتنی بھی ہنگامی صورتحال پیش آئیں ہوں گی ان کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے اور صرف وہی لوگ اس بارے میں بتا سکیں گے جنہیں غیرمعمولی حالات درپیش ہوں گے۔ اس کی سیدھی سادھی سی وجہ یہ ہے کہ حالات جیسے بھی ہوں۔۔مرض، بیماری اور ایمرجنسی کبھی بھی کسی کو بھی پیش آسکتی ہے۔

’وائس آف امریکہ‘ سے تبادلہٴخیال میں کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’شہر کی تمام اہم شاہراہیں بھی سات محرم سے سیل ہیں اور جگہ جگہ رکاوٹیں کھڑی ہیں ایسی صورتحال میں جبکہ شہر کا محل وقوع ہی کچھ اس طرح کا ہو کہ تمام بڑے اسپتال تک انہی بند شاہراوٴں پر واقع ہوں تو اچانک بیمار پڑجانے والے مریض کہاں جائیں ۔ ایسے میں برداشت کی حددیں کیا ہوں گی، اس طرف سوچنے کی اشد ضرورت ہے۔

نو محرم کے بعد اب دس محرم یعنی ہفتے کو بھی ملک بھر میں موبائل فون سروس اور انٹرنیٹ سروس بند رکھنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ کل پھر عام آدمی کو پرانے دور جیسا ایک اور دن گزارنا پڑے گا۔ بیشتر لوگوں کے خیال میں، ’کیا ممکنہ دہشت گردی کو روکنے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ تمام مواصلات کو بند کردیا جائے؟ عوامی رائے کے مطابق اس سلسلے میں ارباب اختیار، علماء، مشائخ اور دانشوروں کو آگے آنا ہوگا۔ انہیں عوام کو آگاہی دینا ہوگی کہ کس طرح تمام مذہبی فرائض اس انداز میں ادا کئے جائیں کہ لوگوں کو پریشانی بھی نہ، ملک کو کروڑوں روپے کا نقصان بھی نہ ہو اور عام آدمی کی زندگی بھی معمول کے مطابق رواں دواں رہے۔‘