امریکہ کی فوج کی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل فرینک مکینزی نے اعتراف کیا ہے کہ افغانستان سے انخلا کے آخری مرحلے میں دارالحکومت کابل میں ڈرون حملے میں ان دہشت گردوں کو ہلاک نہیں کیا گیا جو ایئر پورٹ پر حملہ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔
امریکی جنرل کا جمعے کو یہ اعتراف اس ملٹری تحقیقات کے بعد سامنے آیا ہے جو موقع پر موجود لوگوں کے دعوؤں اور ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے بعد کی گئی تھی کہ گزشتہ ماہ 29 اگست کو نشانہ بنایا جانے والا ہدف کبھی بھی خطرہ نہیں تھا۔
جنرل کینتھ فرینک مکینزی کا پینٹاگون میں موجود صحافیوں سے بذریعہ ویڈیو لنک گفتگو میں کہنا تھا کہ یہ حملہ اس یقین دہانی کے بعد کیا گیا تھا کہ اس سے ان کی فوج اور ایئر پورٹ پر موجود بیرون ملک جانے والوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے گا۔
ان کے بقول تحقیقات سے ثابت ہوا ہے کہ 'حملہ ایک سنگین غلطی' تھی۔
جنرل مکینزی کا مزید کہنا تھا کہ انہیں اب یہ اندازہ ہوا ہے کہ اس گاڑی یا ہلاک ہونے والے افراد کا تعلق ممکنہ طور پر دہشت گرد تنظیم ‘داعش’ سے نہیں تھا۔
امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے بھی غلط حملے پر معذرت کی ہے۔
SEE ALSO: امریکہ نے افغانستان میں ڈرون حملے میں غلطی سے داعش کے بجائے امدادی کارکن کو نشانہ بنایا: رپورٹآسٹن کا جاری کردہ بیان میں کہنا ہے کہ وہ محکمۂ دفاع کی طرف سے اس حملے میں ہلاک ہونے والے افراد کے اہل خانہ سے بھرپور تعزیت کرتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ معذرت خواہ ہیں اور اس غلطی سے سبق سیکھنے کی کوشش کریں گے۔
امریکہ کے محکمۂ دفاع کا یہ اعتراف ایک ایسے وقت پر ہوا ہے جو کہ کئی ہفتوں سے اس ڈرون حملے کا دفاع کیا جا رہا تھا۔
اس حملے کے کچھ دن بعد امریکہ کی فوج کے اعلیٰ ترین افسر چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل مارک ملی نے بھی اس حملے کا دفاع کرتے ہوئے اسے درست قرار دیا تھا۔
جنرل ملی کا رواں ماہ یکم ستمبر کو پینٹاگون میں صحافیوں سے گفتگو میں کہنا تھا کہ انہیں دیگر ذرائع سے بھی یہ معلوم ہوا تھا کہ اس حملے میں ہلاک ہونے والے افراد میں سے کم از کم ایک فرد داعش کا سہولت کار تھا۔
ان کے بقول اس ضمن میں درست طریقۂ کار اپنایا گیا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
امریکی محکمۂ دفاع کے دعوؤں کے بعد مختلف خبریں سامنے آئی تھیں کہ امریکہ کی فوج کے ڈرون حملے میں داعش خراسان کے سہولت کار کے بجائے ازمرائی احمدی نامی امدادی رضاکار کو ہلاک کیا گیا ہے جو کہ امریکہ کی ریاست کیلیفورنیا میں قائم ایک غیر سرکاری تنظیم کے امدادی کارکن تھے اور جنہوں نے امریکہ منتقل ہونے کے لیے درخواست بھی دے رکھی تھی۔
ازمرائی کے خاندان کے مطابق اس حملے میں احمدی کی بیٹی اور اس کے بھانجے اور بھانجیاں ہلاک ہوئے تھے۔
امریکی اخبارات ‘نیو یارک ٹائمز’ اور ‘واشنگٹن پوسٹ’ کی تحقیقات نے بھی امریکی دعوؤں پر شکوک پیدا کر دیے تھے۔
اخبار ’نیو یارک ٹائمز‘ کی ٹیم نے سی سی ٹی وی فوٹیج کا تجزیہ کرنے کے بعد رپورٹ کیا تھا کہ امریکہ کی فوج نے ممکنہ طور پر دیکھا ہو گا کہ ازمرائی احمدی اور ان کے ساتھی گاڑی میں کنستر یا گیلن رکھ رہے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق یہ گیلن پانی سے بھرے ہوئے تھے کیوں کہ کابل کے جس علاقے میں ان کا گھر تھا، وہاں پانی کی قلت ہے۔
’نیو یارک ٹائمز‘ کے مطابق اس کے علاوہ امریکہ کی فوج نے دیکھا ہو گا کہ ان کے پاس لیپ ٹاپ اور دیگر الیکٹرانک آلات بھی ہیں۔
محکمۂ دفاع کے مطابق وہ ابھی بھی سمجھتے ہیں کہ داعش خراسان کا اسی طرح کی گاڑی سے ایئر پورٹ پر حملہ کرنے کا منصوبہ تھا۔
مکینزی کا کہنا تھا کہ امریکہ ازمرائی کے خاندان کی مالی مدد کرے گا۔ البتہ ان کے بقول افغانستان میں امریکہ کے اسٹاف کی غیر موجودگی کی وجہ سے یہ مالی مدد فراہم کرنے میں مشکلات ہو سکتی ہیں۔