امریکہ کے وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن اور وزیرِ دفاع لائیڈ آسٹن اتحادی ممالک کے ساتھ افغانستان کی صورت حال پر بات چیت کے لیے خلیج فارس اور یورپ کے الگ الگ دوروں پر اتوار کو روانہ ہو رہے ہیں۔
وزیرِ خارجہ بلنکن، جو قطر اور جرمنی میں حکام سے ملاقاتیں کریں گے، نے واشنگٹن میں صحافیوں کو بتایا کہ قطر نے افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا اور ہزاروں افغان مہاجرین کے دیگر ممالک جانے کے لیے ایک مرکز کی حیثیت سے کلیدی کردار ادا کیا ہے جس کے لیے وہ قطر کا شکریہ ادا کریں گے۔
اینٹنی بلنکن قطر کے بعد جرمنی کے جنوب مغرب میں قائم رمسٹائن ایئربیس جائیں گے جہاں وہ امریکی فوجیوں کا شکریہ ادا کریں گے اور افغان مہاجرین سے بھی ملاقات کریں گے۔
خبر رساں ادارے 'ایسو سی ایٹڈ پریس' کے مطابق دونوں وزرا ان دوروں میں اس بات کا جائزہ لیں گے کہ افغان جنگ کا خاتمہ امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کے درمیان تعلقات پر کیسے اثر انداز ہو رہا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
امریکی وزرا حلیف ممالک کے رہنماؤں سے افغانستان میں انتہا پسندی کے خطرات کے پھر سے ابھرنے کی روک تھام پر بات کریں گے۔
وہ امریکہ کے خلیجی اتحادیوں کو اس بات کا یقین دلائیں گے کہ صدر جو بائیڈن کے افغان جنگ کو ختم کرنے کے فیصلہ کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ امریکہ اپنے شراکت داروں کو مشرق وسطیٰ میں تہنا چھوڑ رہا ہے بلکہ اس فیصلہ کا مقصد چین اور روس کی جانب سے سلامتی کے چیلنجز پر توجہ مرکوز کرنا ہے۔
وائس آف امریکہ کی نامہ نگار سنڈی سین کی رپورٹ کے مطابق بلنکن نے کہا کہ وہ دورے کے دوران اپنے جرمن ہم منصب ہیکو ماس کے ساتھ بیس ممالک کے وزرا کی ایک ورچوئل یعنی آن لائن کانفرنس سے بھی خطاب کریں گے۔
ان کے بقول، اس کانفرنس میں شامل تمام 20 ممالک کا مفاد اس بات میں ہے کہ وہ افغان مہاجرین کی بحالی میں مدد کریں اور افغانستان کا کنٹرول سنبھالنے والے طالبان کو ان کے وعدوں پر عمل درآمد کرانے پر زور دیتے رہیں۔
SEE ALSO: افغانستان میں خانہ جنگی کا 'امکان' ہے، امریکی جنرل مارک ملی کا انتباہیاد رہے کہ طالبان نے وعدہ کیا ہے کہ وہ بیرون ملک جانے کے خواہش مند افغان شہریوں کو محفوظ راستہ فراہم کریں گے لیکن بہت سے افغان شہری ان کے اس وعدے کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
بلنکن نے صحافیوں سے بات کے دوران افغانستان سے انخلا کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اب افغانستان میں امریکی شہری نسبتاً کم تعداد میں موجود ہیں اور محکمۂ خارجہ ان سے مسلسل رابطے میں ہے۔
دوسری جانب وزیرِ دفاع لائیڈ آسٹن نے دورے سے قبل ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ دہشت گردی کے خطرات پر توجہ برقرار رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ ان تمام خطرات کے خلاف اپنی کوششیں جاری رکھے گا جو کسی بھی جگہ سے امریکی عوام کو درپیش ہوں۔
ان کے بقول ایسا اس صورت میں بھی ہو گا جب امریکہ چین کی طرف سے اسٹرٹیجک چیلنجز پر اپنی توجہ مرکوز کرے گا۔
علاوہ ازیں پینٹاگان کے ترجمان جان کربی نے جمعہ کو کہا تھا کہ لائیڈ آسٹن اپنے دورے میں ممکنہ طور پر قطر،بحرین، کویت اور سعودی عرب بھی جائیں گے۔
اس خبر میں شامل بعض معلومات خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' سے لی گئی ہیں۔