افغانستان کے حکمران طالبان نے بدھ کو امریکہ پر زور دیا ہے کہ دونوں فریقوں کے درمیان حل طلب مسائل طے کرنے کے سلسلے میں عملی اقدامات اٹھائے جائیں۔ اگلے ہفتے دوحہ میں دونوں فریقوں کے درمیان مذاکرات کا نیا دور شروع ہونے والا ہے۔
منگل کو امریکہ نے اعلان کیا کہ افغانستان کے لیے اس کے خصوصی ایلچی تھامس ویسٹ امریکی وفد کی قیادت کریں گے۔ قطر کے دارالحکومت میں طالبان لیڈروں کے ساتھ یہ مذاکرات دو ہفتوں تک جاری رہیں گے۔
طالبان کے ایک سینیر عہدے دار سہیل شاہین نے دو طرفہ مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے امریکی فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم کھلے دل سے امریکہ کے ساتھ تمام مسائل کو بات چیت کے ذریعے حل کرنا اور ان کے ساتھ مثبت تعلقات قائم کرنا چاہتے ہیں۔
شاہین کو اقوام متحدہ میں طالبان نے اپنی حکومت کا مستقل نمائندہ نامزد کیا ہے۔
سہیل شاہین نے وی او اے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اب گیند امریکہ کی کورٹ میں ہے، اور وقت آ گیا ہے کہ امریکہ تعلقات کو معمول پر لانے کی غرض سے تصفیہ طلب مسائل حل کرنے لیے عملی اقدام کرے۔
واشنگٹن میں محکمہ خارجہ کے ترجمان، نیڈ پرائس نے نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ خصوصی ایلچی ویسٹ طالبان مذاکرات کاروں کے ساتھ قومی مفاد کے تحت اہم مسائل پر بات چیت کریں گے، جن میں انسداد دہشت گردی، امریکی شہریوں اور ہمارے لیے کام کرنے والے افغان شہریوں کا محفوظ انخلا، افغانستان کے لیے انسانی ہمدردی کی امداد اور اس ملک کی اقتصادی صورت حال شامل ہیں۔
امریکہ اور طالبان کے درمیان یہ مذاکرات ایک ایسے موقع پر ہو رہے ہیں جب وہاں انسانی بحران شدید ہوتا جارہا ہے اور اقوام متحدہ کے مطابق 60 فی صد آبادی دو وقت کی روٹی کے لیے ترس رہی ہے۔
یہ بحران برسوں کی جنگ، غربت اور بد عنوانی کی وجہ سے پیدا ہوا اور اس پر مستزاد طالبان پر بین الاقوامی اقتصادی پابندیاں بھی لاگو ہیں۔ ان کے علاوہ طالبان کے قبضے کے بعد افغانستان کے تقریباً دس ارب ڈالر کے اثاثے بھی منجمد کر دیے گئے، جس کی بڑی تعداد امریکہ کے فیڈرل ریزرو میں پڑی تھی۔
عالمی مالیاتی فنڈ اور عالمی بینک نے بھی ملک کے لیے اپنے پروگرام بند کر دیے۔ طالبان اور بین الاقوامی امدادی ایجنسیوں نے بھی یہی کہا ہے کہ بین الاقوامی پابندیوں نے افغانستان میں معاشی بحران پیدا کر دیا ہے۔
منگل کو افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی ویسٹ نے وی اے او کو دیے گئے انٹرویو میں کہا تھا کہ پچھلے 20 برسوں سے افغان معیشت کا بیشتر انحصار غیر ملکی امداد پر تھا اور اس کے بند ہو جانے سے وہاں اقتصادی بحران پیدا ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ کے لیے افغان امداد کو کھولنا اتنا آسان نہیں جیسا کہ طالبان سوچتے ہیں۔ اس سلسلے میں پیچیدہ قانونی اور عدالتی وجوہات ہیں، جن کے باعث چند بینکوں سے رقوم کسی دوسری جگہ منتقل نہیں کی جا سکتیں۔
بین الاقوامی برادری اب تک انسانی حقوق، خاص طور سے عورتوں اور لڑکیوں کے حقوق کے سلسلے میں تحفظات رکھتی ہے اور یہ سوال بھی موجود ہے کہ کیا یہ اسلامی گروپ انسداد دہشت گردی کے سلسلے میں اپنے وعدوں کو پورا کرے گا۔ اسی لیے اب تک سفارتی طور پر طالبان حکومت کو تسلیم نہیں جا رہا ہے۔
طالبان پر یہ بھی دباؤ ہے کہ وہ سب کو ساتھ ملا کر حکومت کریں تاکہ افغانستان کی سبھی برادریوں کی مناسب نمائندگی ہو اور سب کو سیاسی ڈھانچے میں ان کا حق ملے، ان میں خواتین اور اقلیتیں بھی شامل ہیں۔
طالبان کا یہ کہنا ہے کہ عبوری حکومت میں سبھی کو شامل کیا گیا ہے اور بہت سے جنگ زدہ علاقوں میں قانون کی حکمرانی قائم کی گئی ہے۔
پچھلے ہفتے طالبان کے وزیر خارجہ امیر متقی نے امریکی کانگریس سے ایک کھلے خط میں اپنے اثاثے واگزار کرانے کی اپیل کی تھی۔
متقی کے دفتر نے بدھ کے روز کہا ہے کہ وزیر خارجہ متقی دوحہ مذاکرات میں طالبان وفد کی قیادت کریں گے اور امریکہ پر زور دیں گے کہ افغان اثاثے جاری کیے جائیں۔