افغانستان سے امریکہ کے انخلا کے ایک سال بعد کابل کے چلینجز میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ ایک طرف تو عالمی برادری نے ملک کی قائم مقام طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا اور دوسری طرف طالبان کی انسانی حقوق کے حوالےسے پالیسیوں، ملک میں جاری انسانی و معاشی بحران، القاعدہ رہنما ایمن الظواہری کی ہلاکت اور داعش جیسی خطرناک دہشت گرد تنظیم کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں نے افغانستان کے مستقبل کے بارے میں بے یقینی کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔
خطے کے استحکام اور علاقائی تعاون میں افغانستان کی اہمیت کے باوجود کابل کے ہمسایہ ممالک طالبان حکومت کے متعلق محتاط رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔ لیکن پاکستان، ایران، بھارت، روس اور چین مسائل میں الجھے افغانستان کوبغور دیکھ رہے ہیں۔ ان مسائل کے باوجود خطے کے بااثر ملک ہونے اور دنیا کی دوسری معیشت کی حیثیت سے چین نے افغانستان کے کان کنی کے شعبے میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔
واشنگٹن کے تعلیمی اور تحقیقاتی ادارے بروکنگز انسٹی ٹیوشن نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں کہا ہے کہ چین کے کردار کے حوالے سے قیاس آرائیاں بڑھ رہی ہیں کہ بیجنگ امریکی انخلاء سے پیدا ہونے والے طاقت کے خلا سے سرمایہ کاری کے ذریعے فائدہ اٹھائے گا۔
اس ماہ جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق یہ خیال کیا جارہا ہے کہ چین افغانستان کے معدنی وسائل بالخصوص توانائی کے شعبے میں استعمال ہونے والی انتہائی اہم لیتھیم دھات کے ذخائر پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔
اندازوں کے مطابق افغانستان میں لیتھیم کےتین ٹریلین ڈالر کے ذخائر موجود ہیں۔ یہ دھات بیٹریوں میں استعمال ہوتی ہے اور توانائی کے شعبے میں کاربن پیدا کرنے والے فاسل فیول پر انحصار کم کرنے کے لیے کلیدی اہمیت رکھتی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
رپورٹ ترتیب دینے والے بروکنگز کے تین ماہرین نے نوٹ کیا کہ چین کے وزیر خارجہ وانگ یی نے مارچ کے آخر میں افغانستان کا اچانک دورہ بھی کیا تھا۔ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان اور قطر کے علاوہ چینی وزیر خارجہ افغانستان کا دورہ کرنے والے اعلیٰ ترین عہدے دار تھے۔
بروکنگز کے مطابق بیجنگ نے واضح کیا ہے کہ وہ علاقائی استحکام اور اس کے حصول میں طالبان کی مدد چاہتا ہے۔ وزیر خارجہ وانگ یی نے کابل میں ایک ایسی جامع حکومت کی حمایت کی جس میں غیر طالبان دھڑے شامل ہوں اور جو دہشت گرد گروہوں کے خلاف اقدامات کرے۔ رپورٹ کے مطابق چینی وزیر خارجہ نے طالبان پر تحریک طالبان پاکستان اور چین میں فعال ترکستان اسلامک پارٹی سے تعلقات توڑنے پر بھی زور دیا تھا۔
خیال رہے کہ چین اس بات سے پریشان ہے کہ ایغور جنگجو افغانستان میں تربیت حاصل کرتے ہیں اور چین کے خلاف حملوں میں ملوث ہیں۔
خطے پر نظر رکھنے والے ماہرین کے مطابق اہم معدنیات سے فائدہ اٹھانے کے سلسلے میں چین کے عالمی کردار کے پیش نظر، افغانستان میں بیجنگ کی ممکنہ سرگرمیاں مغرب کے لیے سلامتی اور گڈ گورننس دونوں چیلنجز کو جنم دیتی ہیں۔
لیکن کیا چین افغانستان میں صرف معدنیات کے شعبے میں سرمایہ کاری میں دلچسبی رکھتا ہے؟ کیا افغانستان میں چین کی سرمایہ کاری خطے کے لیے مفید ہو سکتی ہے؟ اور امریکہ چین کے اس کردار کو کیسے دیکھے گا؟
واشنگٹن کے دی مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ میں افغانستان اور پاکستان اسٹڈیز کے ڈائریکٹر مارون وائن بام مذکورہ سوالات کے جواب میں کہتے ہیں کہ گزشتہ سال کے امریکی انخلا اور بہت سے واقعات کے پس منظر میں دیکھا جائے تو یہ بات قابل ذکر ہے کہ چین نے کابل میں اپنی سفارتی سرگرمیاں جاری رکھی ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر موجودہ حالات کی بات کی جائے تو امریکہ کی طرح چین افغانستان میں استحکام کا خواہاں دکھائی دیتا ہے جب کہ امریکہ چاہتا ہے کہ افغانستان آئندہ کبھی بھی دہشت گردوں کی آماجگاہ نہ بنے جس سے دنیا کی سلامتی کو خطرات لاحق ہوں۔
ساتھ ہی وہ کہتے ہیں کہ اگر بیجنگ افغانستان میں سرمایہ کاری کرتا ہے تو اس کو کئی زاویوں سے جانچنا ہوگا۔ مثال کے طور پر واشنگٹن دیکھنا چاہے گا کہ آگے چل کر چین کے مفادات کیا ہوں گے۔ ڈاکٹر وائن بام کہتے ہیں کہ چین کبھی بھی انسانی حقوق کے لیے آواز نہیں اٹھاتا اور دوسرا یہ کہ وہ سرمایہ کاری کے ذریعے اپنا اثرو رسوخ بھی بڑھاتا ہے۔
امریکہ اور چین میں مسابقت کے تناظر میں وہ کہتے ہیں کہ چین کا افغانستان میں کردار بھی بڑی تصویر کا ایک پیچیدہ پہلو دکھائی دیتا ہے اور چین کی پالیسیوں کے حوالے سے امریکی عوام کا حکومتوں پرسیاسی دباؤ بھی واضح ہے۔
جہاں تک چین کی ممکنہ سرمایہ کاری کا افغان عوام کے لیے ثمرات کا سوال ہے تو ڈاکٹر وائن بام کہتے ہیں کہ زیرِ زمین معدنیات یا کان کنی میں سرمایہ کاری ایک مخصوص عمل اور اسپیشیلائزڈ کام ہے جس سے عوام کو بڑے پیمانے پر اقتصادی مواقع میسر نہیں ہوتے بلکہ مہارت پر انحصار کرتے ہوئے سرمایہ کار کمپنیاں منافع کو سامنے رکھتی ہیں۔
خطے پر نظر رکھنے والے ماہرین کہتے ہیں کہ چین اپنے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو منصوبے کے تحت پاکستان میں شروع کیے گئے چین پاکستان راہداری کے کئی بلین ڈالرز کے منصوبوں کی بحفاطت تکمیل چاہتا ہے اور افغانستان کے ذریعے اسے پھیلانا چاہتا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
فارن پالیسی میگزین میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں ماہرین رافیلو پینٹوچی اور ڈاکٹر الیگزینڈرو پیٹرسن لکھتے ہیں کہ امریکی انخلا اور مختلف عوامل کے پیش نظر چین کا افغانستان میں اہم کردار ادا کر نا اب ناگزیر بن چکا ہے۔
دونوں ماہرین نے گزشتہ سال چین کے افغانستان میں کردار کے حوالے سے ایک کتاب تحریر کی تھی جس کا عنوان "سائنستان: چائنا'ز ان ایڈورٹنٹ ایمپائر" رکھا گیا۔ کتاب کا مرکزی نقطہ نظر یہ ہے کہ چین نہ چاہتے ہوئے بھی افغانستان میں اہم کردار ادا کرے گا اگرچہ وہ فی الحال ایسا کرنے سے گریزاں دکھائی دیتا ہے۔
البتہ مصنفین نے مضموں میں نوٹ کیا ہے کہ چین نے افغانستان کو بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے ایک حصے کے طور پر شامل کرنے کی بات کی ہے، اور دونوں ملکوں میں کچھ حالیہ تجارت بھی شروع ہوئی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ چین ملک میں اہم کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے لیکن بظاہر یوں محسوس ہورہا ہے کہ اس نے فی الوقت افغانستان کو کنارے سے دیکھنے کا اسٹرٹیجک فیصلہ کیا ہے۔
بروکنگز کی رپورٹ کے مطابق تصوراتی طور پر چین کی افغانستان میں سرمایہ کاری بیجنگ اور طالبان دونوں کےلیے فائدہ مند ہو سکتی ہے ۔ چین کو اپنی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے معدنی وسائل تک رسائی ممکن ہو سکے گی جبکہ طالبان جنہیں بین الاقوامی پابندیوں کا سامنا ہے چینی سرمایہ کاری سے معاشی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
ماہرین کہتے ہیں کہ موجودہ حالات میں چین کی توجہ لیتھیم جیسی اہم دھات کو لاطینی امریکہ کے ممالک سے حاصل کرنے پر ہے۔ افغانستان میں ایسی سرمایہ کاری کی راہ میں لاجسٹک رکاوٹیں، ملک میں استحکام اور سلامتی کے مسائل بھی ہیں۔ اس لیے چین کی طرف سے تیزرفتار اقدامات کےامکانات زیادہ نمایاں نہیں ہیں۔