امریکی کانگریس میں اس وقت صدر براک اوباما اور حزب اختلاف کی جماعت ریپبلکن پارٹی کے اراکین کے درمیان ملک کے وفاقی بجٹ پر زبردست کشمکش جاری ہے ، اور کوئی سمجھوتہ نہ ہونے کی صورت میں نتیجہ، امریکہ کے سرکاری اداروں کو چلانے کے لیے فنڈز کی بندش کی شکل میں نکل سکتا ہے ۔حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان کسی سمجھوتے کسی پہنچنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ قدامت پسند تحریک ٹی پارٹی کا بڑھتا ہوادباؤہے ۔ جن کا مطالبہ ہے کہ ریپبلکن پارٹی کو وفاقی حکومت کے اخراجات کم کرنے کا اپنا وعدہ پورا کرنا ہوگا ۔
ٹی پارٹی کے حامی ریپبلکن پارٹی کے اراکین کانگریس سے یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ وہ بجٹ خسارہ کم کرنے کے لیے اوباما حکومت پر اپنا دباؤ برقراررکھیں ۔
اس سلسلے گذشتہ نوں کیپیٹل ہل کے قریب جمع ہونے والا ہجوم اگرچہ اتنا بڑا نہیں تھا جتنی بڑی ریلیاں ٹی پارٹی کے حامی پچھلے ایک سال کے دوران منعقد کر چکے ہیں ۔ لیکن پیغام یہاں بھی ایک ہی تھا کہ ریپبلکن اراکین کانگریس صدر اوباما اور ڈیمو کریٹس کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہ کریں ۔
ٹی پارٹی کے ایک حامی بروک سٹوری کا کہناہے کہ ایسے سمجھوتوں کی وجہ سے حالات یہاں تک پہنچے ہیں ۔ اب مزید سمجھوتوں کا وقت نہیں ۔ ہم دیوالیہ ہو چکے ہیں ۔ امریکہ دیوالیہ ہو چکا ہے ۔
ٹی پارٹی کے حامیوں نے پچھلے سال امریکی کانگریس کے وسط مدتی انتخابات میں ریپبلکن پارٹی کو کامیابی دلوانے میں اہم کردار ادا کیا تھا اور اس وقت کانگریس کے کئی ریپبلکن اراکین بھی ٹی پارٹی کے حامیوں پرزوردے رہے ہیں کہ وہ اوباما حکومت پر اپنے اخراجات کم کرنے کا دباؤ برقرار رکھیں ۔ ریپبلکن رکن کانگریس مشیل بک مین کا ان سے کہناتھا کہ آپ عظیم لوگ ہیں ، یقیناً حکومت آپ سے خوفزدہ ہے کیونکہ آپ کے پاس طاقت ہے۔ میرا پیغام ہے کہ جرات کا یہی مظاہرہ جاری رکھیں ۔
ٹی پارٹی کے حامی اگرچہ حکومت سے کسی سمجھوتے پر تیار نظر نہیں آتے ، لیکن صدر اوباما کا کہنا ہے کہ امریکہ اس وقت کسی سیاسی تعطل کامتحمل نہیں ہو سکتا ۔
ان کا کہناتھا کہ ایک ایسے وقت میں جب معیشت کی حالت سنبھل رہی ہے ، روزگار کی صورتحال بہتر ہو رہی ہے ، کوئی آخری چیز جو ہم سوچ سکتے ہیں وہ سرکاری امور کا رک جانا ہوگا ۔
لیکن ابھی تک ریپبلکن ہاؤس سپیکر جون بینر اوباما حکومت کی پیش کردہ ترغیبات سے مطمئن نہیں ہوئے ۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم اس وقت اخراجات میں ہر ممکن کمی چاہتے ہیں اور اس مقصد کے حصول کے لئے لڑتے رہیں گے ۔
لیکن واشنگٹن سے باہر رہنے والے افراد دارلحکومت میں بجٹ کے معاملے پر جاری بحث سے الگ تھلگ نظر آتے ہیں ۔ جیسے کہ شکاگو کے رہنے والے ایک شخص کا کہناہے کہ میں نے تو کسی کو اس بارے میں بات کرتے نہیں دیکھا ۔
ایک اور شخص کا کہناتھا کہ کاش یہ لوگ کچھ سمجھ سے کام لیں ، وہ تو عوام سے کھیل رہے ہیں ، اور کوئی بھی اصلی معاملات پر کچھ نہیں کرنا چاہتا۔
ریاست الی نوائے کےایک کاشت کار مونٹی وپل کہتے ہیں کہ دیہاتوں میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے ۔ ان کا خیا ل ہے کہ سرکاری اداروں کی بندش یا شٹ ڈاؤن کو روکا جا سکتا ہے ۔ ان کا کہناتھا کہ واشنگٹن کے سیاست دان دوسروں کو بیوقوف بنا رہے ہیں ، کوئی نہ کوئی حل نکل آئے گا ۔
لیکن سوال یہ ہے کہ اگر امریکہ کے سرکاری ادارے بجٹ منظور نہ ہونے کی وجہ سے بند ہوئے تو عوام کسے مورد الزم ٹہرائیں گے ۔
لیکن ٹی پارٹی کے حامیوں کا کہنا ہے کہ وہ اس وقت تک اوباما حکومت پراپنا دباؤ بڑھاتے رہیں گے جب تک کانگریس ان کے مطالبات مان نہیں لیتی ۔