چین کے صدر ژی جن پنگ نے اپنے ملک کے میزائل نظام کو اس قدر مضبوط کر دیا ہے کہ وہ اب ایشیا میں امریکہ کے طیارہ بردار بحری بیڑوں اور چھاؤنیوں کیلئے غیر معمولی چیلنج کا باعث بن گیا ہے۔
امریکی بحریہ کی انٹیلی جنس کے سابق سربراہ کیپٹین جیمز فینل نے خبر رساں ادارے رائٹرز کو بتایا کہ ’’چین کے پاس اب دنیا کی جدید ترین بیلسٹک میزائل فورس ہے، اور اس میں اِتنی صلاحیت ہے کہ وہ ہمارے دفاعی نظاموں پر غالب آ سکتی ہے‘‘۔
رائٹرز نے اپنی خبر میں کہا ہے کہ کارکردگی کے اعتبار سے چین کے ہتھیار اور اسلحہ اب امریکہ کے مقابلے پر آگئے ہیں یا پھر اِن سے بہتر ہو گئے ہیں، اور امریکہ کی جانب سے جنوبی کوریا، جاپان اور تائیوان جیسے اتحادیوں کو فراہم کیے جانے والے حفاظتی حصار کو چیرتے ہوئےاندر تک مار کر سکتے ہیں۔
چین کے فوجی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ان کے سمندروں میں کسی تنازعے کی صورت میں، اب چین کے پاس ایسے ذرائع موجود ہیں جن کے ذریعے وہ امریکہ کو اپنے ساحلوں سے دور رکھ سکتا ہے۔ چین کی پیپلز لبریشن آرمی کے ایک ریٹائرڈ کرنل نے رائٹرز کو بتایا کہ چین، امریکہ کو سمندروں میں شکست تو نہیں دے سکتا، لیکن اس کے پاس ایسے میزائل موجود ہیں، جو کسی تنازعے کی صورت میں، امریکی طیارہ بردار جہازوں کو خصوصی طور پر نشانہ بنا کر اپنی سمندری حدود میں داخل ہونے سے روک سکتے ہیں۔
یہ امکانی طور پر ایک ڈرامائی انکشاف ہے، جس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ جنوبی بحیرہ چین میں تسلط کیلئے اپنی کارروائیوں کو وسعت دیتے ہوئے، چین کسی امریکی مداخلت کو روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جنوبی بحیرہ چین کے پانیوں پر، چین کا تائیوان اور جاپان کے ساتھ تنازعہ چل رہا ہے۔
اب اچانک امریکہ کے فوجی منصوبہ سازوں کو احساس ہوا ہے کہ امریکہ میزائل ٹیکنالوجی میں کچھ پیچھے رہ گیا ہے جو کہ ان کیلئے ایک نئی اور ڈراؤنی صورتحال ہے۔ چونکہ چین کے بحری جہاز شکن میزائل، اب طیارہ بردار بیڑوں کو نشانہ بنا سکیں گے، اس لئے کسی تنازعے کی صورت میں چین کو اب سبقت حاصل ہو گئی ہے۔ اگر امریکی بحری جہازوں پر موجود طیاروں کو مجبوراً اپنی رینج سے باہر نکل کر کارروائی کرنا پڑی تو اُن کی کاٹ بہت کم ہو گی۔
کافی عرصے سے مشرق وسطیٰ اور افغانستان میں جنگوں میں مصروف، امریکہ، اب تیزی سے سبقت کا پلڑا اپنے حق میں کرنے کیلئے کام کر رہا ہے۔
یکم فروری کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا تھا کہ وہ آئندہ چھہ مہینوں میں روس کے ساتھ اپنے میزائل سمجھوتے سے الگ ہو رہا ہے، جس سے امریکہ کیلئے تین عشروں سے زمین سے مار کرنے والے میزائلوں کی تیاری پر قدغن سے مبرّیٰ ہونے کی راہ ہموار ہو جائے گی۔
چین کی وزارتِ دفاع، امریکہ کے محکمہ دفاع (پینٹاگون) اور یو ایس اِنڈو پیسیفک کمان نے اس بارے میں رائٹرز کے سوالوں کا جواب نہیں دیا۔