امریکہ اور چین دنیا بھر میں اثر و رسوخ کے لیے جیسے جیسے مقابلہ کر رہے ہیں جنوب مشرقی ایشیا میں ان بڑی طاقتوں کے درمیان اقتصادی پالیسیوں، بحیرۂ جنوبی چین میں علاقائی تنازعات اور تائیوان کی آزادی کے مسائل پر کشیدگی بڑھ رہی ہے۔
چین کی سربراہی میں خطے میں اقتصادی شراکت داری کا معاہدہ 'آر سی ای پی' اس سال یکم جنوری کو نافذ ہوا تھا۔ آزاد تجارت کے اس معاہدے میں ایشیا پیسیفک کے 15 ممالک جب کہ جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی ایسوسی ایشن آسیان کے تمام 10 ارکان شامل ہیں۔
'آر سی ای پی' کو دنیا کا سب سے بڑا آزاد تجارتی معاہدہ کہا جاتا ہے اور آسٹریلیا، جاپان، جنوبی کوریا اور نیوزی لینڈ بھی اس کا حصہ ہیں ۔
گزشتہ ماہ کمبوڈیا میں آسیان کے 25ویں سربراہی اجلاس کے موقع پر چین کے وزیرِ اعظم لی کی چیانگ نےایک تقریر میں کہا تھا کہ چین اور آسیان کے درمیان تجارتی حجم 2022 کے پہلے 10 مہینوں میں سات کھرب 98 ارب 40 کروڑ ڈالر کی نئی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے۔
جنوب مشرقی ایشیا میں بڑی طاقتوں کے مقابلے پر تحقیق کرنے والے آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی اسکالر ہنٹر مارسٹن کہتے ہیں کہ یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ آرسی ای پی معاہدے سے آسیان کے خطے کو خاطر خواہ اقتصادی فوائد حاصل ہوئے ہیں۔
وائس آف امریکہ کی مینڈیرن سروس سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگرچہ آسیان-چین تجارت 2022 کے (ابتدائی 10 ماہ میں) ریکارڈ بلندی تک پہنچی لیکن یہ کہنا مشکل ہے کہ آیا اس سے واضح اور دیرپا اقتصادی فوائد حاصل ہوں گے ، یہ صرف رکاوٹوں کو کم اور تجارت کو زیادہ مؤثر بناتا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے رواں برس مئی میں آرسی ای پی معاہدے کے مقابلے میں انڈو پیسیفک اکنامک فریم ورک (آئی پی ای ایف) کا افتتاح کیا تھا۔اس معاہدے میں آسٹریلیا، بھارت، انڈونیشیا، جنوبی کوریا اور جاپان سمیت 14 اراکین شامل ہیں۔
آئی پی ای ایف کا مقصد خطے میں امریکہ کے اقتصادی تعلقات کا اعادہ کرنا اور بیجنگ کے لیے واشنگٹن کی قیادت میں ایک متبادل فراہم کرنا ہے۔
بائیڈن نے ٹوکیو میں آئی پی ای ایف کی افتتاحی تقریب کے دوران کہا تھا کہ 21ویں صدی کی معیشت کا مستقبل بڑی حد تک ہندبحرالکاہل میں لکھی جائےگی۔
اس سلسلے میں بائیڈن نے کہا تھا "ہم نئے اصول لکھ رہے ہیں۔"
آئی پی ای ایف کی بہت سی تفصیلات ابھی تک عام نہیں کی گئی ہیں البتہ آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی کے ہنٹر مارسٹن نے پیش گوئی کی ہے کہ بائیڈن 2023 میں اس اقتصادی اقدام کے بارے میں مزید اعلان کریں گے۔
Your browser doesn’t support HTML5
واشنگٹن اب بھی خطے میں سرمایہ کاری میں سرفہرست ہے ۔2021 میں امریکی سرمایہ کاری 41 فی صد بڑھ کر 40 ارب ڈالرز ہو گئی تھی البتہ آسیان انویسٹمنٹ 2022 کی رپورٹ کے مطابق بیجنگ کی سرمایہ کاری 96 فی صد اضافے کے ساتھ لگ بھگ 14 ارب ڈالر تک ہے۔
مبصرین نے وائس آف امریکہ کی مینڈیرن سروس کو بتایا کہ واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان اقتصادی دشمنی اس سال مرکزی سطح پر آگئی ہے لیکن دیگر 'فلیش پوائنٹس' بھی پیدا ہوئے ہیں۔
تائیوان کی نیشنل چینگچی یونیورسٹی کے پروفیسر ایلن یانگ کے مطابق کچھ جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کو خدشہ ہے کہ امریکی ایوانِ نمائندگان کی اسپیکر نینسی پیلوسی کے 2022 میں اگست میں تائیوان کے دورے کے بعد چین کے تائیوان کے خلاف فوجی کارروائی کرنے کاامکان پیدا ہوگیا ہے۔
ایلن یانگ کے مطابق امریکہ سے، چین، بحیرۂ تائیوان، بحیرۂ جنوبی چین تک، ایسے مسائل موجود ہیں جنہیں الگ کرنا مشکل ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کے بقول، "اس سال بحیرۂ جنوبی چین میں کوئی بڑی کارروائی نہیں ہوئی۔ کسی حد تک یہ اب بھی دو بڑی بیرونی قوتوں کے تابع ہے۔ ایک امریکہ اور چین کی دشمنی، اور دوسری وبائی مرض کے اثر کے۔"
واشنگٹن میں قائم تحقیقی ادارے کونسل آن فارن ریلیشنز میں جنوب مشرقی ایشیا کے لیے سینئر فیلوجوش کرلانٹزک کے خیال میں تائیوان کا تنازع 2023 میں امریکہ اور چین کے درمیان تشویش کا باعث ہو گا۔
اس مسئلے کی نزاکت کو بیان کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ "امریکہ اور چین تائیوان کے ساتھ ایک رقص میں مصروف ہیں اور دونوں ملک ممکنہ کشیدگی کے قریب سے قریب تر ہو رہے ہیں۔"