امریکی صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ پاکستان کو کسی بھی دوسرے ملک کی نسبت دہشت گردی سے زیادہ خطرہ لاحق ہے اور اسی وجہ سے شدت پسندوں کے خلاف لڑائی خود اس کے مفاد میں ہے۔
وائس آف امریکہ کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں امریکی صدر کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان کو یہ باور کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ دہشت گردی کسی دوسرے ملک سے زیادہ خود اُس کے لیے خطرہ ہے ۔” ناصرف ہمسایہ ملکوں بلکہ امریکہ جیسے دوست ممالک کے ساتھ تعلقات بھی اسی وجہ سے تناؤ کا شکار ہو رہے ہیں۔“
صدر اوباما نے کہا کہ اُن کے خیال میں پاکستان نے دہشت گردی کو ہمیشہ کسی دوسرے ملک کا مسئلہ سمجھا ہے یا پھر وہ طالبان کو افغانستان میں اپنے مفادات کے تحفظ کا ذریعہ تصور کرتا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ اگر پاکستان براہ راست افغان حکومت سے تعمیری تعلقات استوار کر لے تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ طالبان کو افغانستان میں اپنے مفادات کو محافظ سمجھے۔ ” اس کی بجائے اُنھیں (پاکستان کو) افغان حکومت کو ایسے ساتھی کے طور پر دیکھنا چاہیئے جس کے ساتھ وہ کام کر سکتے ہیں۔“
معتدل طالبان کے ساتھ افغان حکومت کی مصالحت کی کوششوں کے بارے میں امریکی صدر نے پاکستان کے کردار کو جائز قرارد یا۔ مسٹر اوباما کے مطابق افغانستان اور پاکستان ایک ہی مسئلے کا حصہ ہیں۔
امریکی صدر نے کہا کہ پاک افغان سرحدسے ملحقہ علاقے انتہاپسند عناصر کے قبضے میں ہیں جنھوں نے وہاں القاعدہ کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کر رکھی ہیں جہاں سے ناصرف دونوں ملکوں بلکہ دنیا بھر میں حملے ہورہے ہیں۔
مسٹر اوباما نے پاک امریکہ تعلقات میں وسعت کی اُن کی انتظامیہ کی کوشش دو طرفہ تناؤ کی وجہ بنی ہے البتہ اُن کا کہنا تھا کہ مجموعی طور پر پاکستان نے امریکہ سے خفیہ معلومات کے تبادلے اور پاکستانی حدود میں انتہائی اہم اہداف کو نشانہ بنانے میں تعاون کیا ہے۔ اُن کے بقول وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دیانت داری دوطرفہ تعلقات کی بنیاد بنی ہے جس کی وجہ سے بعض معاملات پر سنجیدہ اختلافات بھی پیدا ہوئے ہیں۔
”یقینا اسامہ بن لادن کو ہلاک کرنے کے لیے کیے گئے آپریشن کی وجہ سے مزید گشیدگی پیدا ہوئی، لیکن میں ہمیشہ پاکستان پر واضح کرتا رہا تھا کہ اگر ہمیں کبھی بھی اس (بن لادن) کی موجودگی کا علم ہوا تو ہم اُسے ختم کرنے کاموقع ہاتھ سے نہیں جانے دیں گے۔“
امریکی صدر کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان تسلیم کرلے کہ اُس کی سا لمیت کو خطرہ اندرونی انتہاپسندوں سے ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ دونو ں ملک مل کر کام کریں تاکہ امریکہ، پاکستان اور افغانستان کے سلامتی سے متعلق مفادات کا تحفظ کیا جا سکے۔
براک اوباما نے وائس آف امریکہ کو خصوصی انٹرویو بدھ کی شب ٹیلی ویژن پر براہ راست قوم سے اُس خطاب کے بعد دیا جس میں اُنھوں نے افغانستان میں تعینات امریکی افواج کے انخلاء کے منصوبے کا اعلان کیا۔
اس منصوبے کے تحت جولائی میں امریکی افواج کی وطن واپسی کا عمل شروع ہوگا اور ابتدائی مرحلے میں 10 ہزار اہلکار رواں سال کے آخر تک افغانستان سے نکل جائیں گے اور آئندہ سال کے اختتام تک مزید 23 ہزار امریکی افواج کا انخلاء مکمل ہو جائے گا۔
اپنے خطاب میں صدر اوباما نے کہا کہ پاکستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانے موجود ہیں اور امریکہ پاکستانی حکومت کے ساتھ مل کر ”پرتشدد انتہاپسندی کے سرطان“ کے خاتمے کی کوششیں جاری رکھے گا۔
”بلاشبہ جب تک میں صدر ہوں، امریکہ اُن عناصر کے لیے کوئی محفوظ ٹھکانابرداشت نہیں کرے گا جو ہمیں ہلاک کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ وہ نا تو چکما دے سکتے ہیں اور نا ہی اُس سزا سے بچ سکتے ہیں جس کے وہ مستحق ہیں۔“