صدر اوباما کی جانب سے کانگریس کو بھیجے جانے والے ایک خط میں کہا گیا ہے کہ فوجی دستے کی عراق روانگی کا مقصد وہاں موجود امریکی شہریوں اور سفارت خانے کی حفاظت یقینی بنانا ہے۔
واشنگٹن —
امریکہ کے صدر براک اوباما نے عراق میں امریکی سفارت خانے اور وہاں تعینات عملے کے افراد کی حفاظت کے لیے 275 اہلکاروں پر مشتمل لڑاکا فوجی دستہ عراق بھیجنے کی منظوری دیدی ہے۔
صدر اوباما کی جانب سے کانگریس کو بھیجے جانے والے ایک خط میں کہا گیا ہے کہ فوجی دستے کی عراق روانگی کا مقصد وہاں موجود امریکی شہریوں اور تنصیبات کی حفاظت یقینی بنانا ہے۔
صدر نے اپنے خط میں کہا ہے کہ یہ فوجی ضرورت پڑنے پر جنگی صورتِ حال کا مقابلہ کرنے کے اہل ہیں اور سکیورٹی کی صورتِ حال بہتر ہونے تک عراق میں موجود رہیں گے۔
پیر کو بھیجنے جانے والے اس خط میں صدر اوباما نے اراکینِ کانگریس کو بتایا ہے کہ فوجی دستہ عراق بھیجنے کا فیصلہ عراقی حکومت کی مشاورت اور رضامندی سے کیا جارہا ہے۔
صدر اوباما اسلام پسند سنی العقیدہ جنگجووں کی پیش قدمی کو روکنے کے لیے امریکی فوج عراق بھیجنے کا امکان رد کرچکے ہیں لیکن ساتھ ہی انہوں نے واضح کیا ہے کہ جنگجووں کے خلاف عراقی حکومت کو ہر ممکن مدد فراہم کی جائے گی۔
پیر کو امریکی صدر نے قومی سلامتی کے امور پر اپنے مشیروں کے ساتھ ملاقات بھی کی جس میں، وہائٹ ہاؤس' کے مطابق، عراق کی صورتِ حال اور اس سے نبٹنے کے طریقوں پر غور کیا گیا۔
امریکی ذرائع ابلاغ کا دعویٰ ہے کہ فوجی دستے عراق بھیجنے سے انکار کے بعد اوباما انتظامیہ کے زیرِ غور سرِ فہرست قدم شمالی عراق کے بڑے حصے پر قابض جنگجووں کے ٹھکانوں اور مراکز کو فضا سے بمباری کا نشانہ بنانا ہے۔
امریکی محکمۂ دفاع 'پینٹاگون' کے حکم پر امریکی فوج کا ایک طیارہ بردار جنگی جہاز پہلے ہی عراق کے نزدیک کھلے سمندر میں پہنچ چکا ہے۔
امریکی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ جنگجووں کے خلاف کارروائی کے لیے ایران کے ساتھ بھی تعاون کرنے پر غور کر رہی ہے۔ لیکن 'پینٹاگون' نے واضح کیا ہے کہ عراق میں کارروائی کی غرض سے امریکہ اور ایران کے درمیان کسی قسم کا فوجی تعاون زیرِ غور نہیں۔
'القاعدہ' سے الگ ہونے والی اسلام پسند جنگجو تنظیم 'الدولۃ اسلامیۃ فی العراق الشام (داعش)' نے گزشتہ ہفتے عراق کے دوسرے بڑے شہر موصل پر قبضہ کرلیا تھا جس کے بعد جنگجو بغداد کی طرف پیش قدمی کر رہے ہیں۔
عراق کی شیعہ حکومت کے خلاف برسرِ پیکار ان سنی جنگجووں نے شیعہ مسلک کے اہم مذہبی مقام کربلا اور دارالحکومت بغداد پر بھی قبضے کی دھمکی دی ہے جس پر ان سے مقابلے کے لیے شیعہ رہنماؤں کی اپیل پر رضاکار لشکر بھی تیار کیے جارہے ہیں۔
جنگجووں نے بغداد کے راستے میں آنے والے کئی چھوٹے بڑے شہروں اور قصبوں کا بھی کنٹرول سنبھال لیا ہے جہاں کے رہائشی لاکھوں کی تعداد میں حکومت کے زیرِ انتظام علاقوں کی طرف نقل مکانی کر رہے ہیں۔
صدر اوباما کی جانب سے کانگریس کو بھیجے جانے والے ایک خط میں کہا گیا ہے کہ فوجی دستے کی عراق روانگی کا مقصد وہاں موجود امریکی شہریوں اور تنصیبات کی حفاظت یقینی بنانا ہے۔
صدر نے اپنے خط میں کہا ہے کہ یہ فوجی ضرورت پڑنے پر جنگی صورتِ حال کا مقابلہ کرنے کے اہل ہیں اور سکیورٹی کی صورتِ حال بہتر ہونے تک عراق میں موجود رہیں گے۔
پیر کو بھیجنے جانے والے اس خط میں صدر اوباما نے اراکینِ کانگریس کو بتایا ہے کہ فوجی دستہ عراق بھیجنے کا فیصلہ عراقی حکومت کی مشاورت اور رضامندی سے کیا جارہا ہے۔
صدر اوباما اسلام پسند سنی العقیدہ جنگجووں کی پیش قدمی کو روکنے کے لیے امریکی فوج عراق بھیجنے کا امکان رد کرچکے ہیں لیکن ساتھ ہی انہوں نے واضح کیا ہے کہ جنگجووں کے خلاف عراقی حکومت کو ہر ممکن مدد فراہم کی جائے گی۔
پیر کو امریکی صدر نے قومی سلامتی کے امور پر اپنے مشیروں کے ساتھ ملاقات بھی کی جس میں، وہائٹ ہاؤس' کے مطابق، عراق کی صورتِ حال اور اس سے نبٹنے کے طریقوں پر غور کیا گیا۔
امریکی ذرائع ابلاغ کا دعویٰ ہے کہ فوجی دستے عراق بھیجنے سے انکار کے بعد اوباما انتظامیہ کے زیرِ غور سرِ فہرست قدم شمالی عراق کے بڑے حصے پر قابض جنگجووں کے ٹھکانوں اور مراکز کو فضا سے بمباری کا نشانہ بنانا ہے۔
امریکی محکمۂ دفاع 'پینٹاگون' کے حکم پر امریکی فوج کا ایک طیارہ بردار جنگی جہاز پہلے ہی عراق کے نزدیک کھلے سمندر میں پہنچ چکا ہے۔
امریکی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ جنگجووں کے خلاف کارروائی کے لیے ایران کے ساتھ بھی تعاون کرنے پر غور کر رہی ہے۔ لیکن 'پینٹاگون' نے واضح کیا ہے کہ عراق میں کارروائی کی غرض سے امریکہ اور ایران کے درمیان کسی قسم کا فوجی تعاون زیرِ غور نہیں۔
'القاعدہ' سے الگ ہونے والی اسلام پسند جنگجو تنظیم 'الدولۃ اسلامیۃ فی العراق الشام (داعش)' نے گزشتہ ہفتے عراق کے دوسرے بڑے شہر موصل پر قبضہ کرلیا تھا جس کے بعد جنگجو بغداد کی طرف پیش قدمی کر رہے ہیں۔
عراق کی شیعہ حکومت کے خلاف برسرِ پیکار ان سنی جنگجووں نے شیعہ مسلک کے اہم مذہبی مقام کربلا اور دارالحکومت بغداد پر بھی قبضے کی دھمکی دی ہے جس پر ان سے مقابلے کے لیے شیعہ رہنماؤں کی اپیل پر رضاکار لشکر بھی تیار کیے جارہے ہیں۔
جنگجووں نے بغداد کے راستے میں آنے والے کئی چھوٹے بڑے شہروں اور قصبوں کا بھی کنٹرول سنبھال لیا ہے جہاں کے رہائشی لاکھوں کی تعداد میں حکومت کے زیرِ انتظام علاقوں کی طرف نقل مکانی کر رہے ہیں۔