امریکی ایوانِ نمائندگان نے بدھ کے روز ایک بل کی منظوری دی جس میں چین کے سنکیانگ کے خطے میں تیار کردہ مصنوعات کے معاملے پر تشویش کا اظہار کیا گیا، چونکہ وہاں مبینہ طور پر جبری مشقت کے ہتھکنڈوں سے کام لیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے وہاں کی برآمدات پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
یہ اقدام ایسے میں سامنے آیا ہے جب چین پر اپنے ملک کی ایغور مسلمان اقلیت سے ناروا سلوک کے الزامات ایک عرصے سے سامنے آرہے ہیں۔
امریکی ایوانِ نمائندگان نے ایغور آبادی کی جبری مشقت روکنے سے متعلق ایکٹ کو ایک کے مقابلے میں 428 ارکان کی غالب اکثریت سے منظور کیا۔ قانون کا درجہ حاصل کرنے کے لیے اب اس بل کی سینیٹ سے منظوری درکار ہو گی، جس کے بعد صدر جو بائیڈن اس پر دستخط کر کے اسے قانونی حیثیت دیں گے۔
SEE ALSO: چین: امریکی الیکٹرانک کمپنی میں کام کرنے والے ایغور مزدور جبری مشقت کا تو حصہ نہیں؟ایغور آبادی کی حمایت میں اٹھائے گئے اس اقدام پر مبنی یہ رائے بحث کا موضوع بن سکتی ہے کہ آیا سنکیانگ میں تیار کی جانے والی تمام اشیا جبری مشقت کے ذریعے ہی تیار ہوتی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق حکومتِ چین نے اس خطے میں ایغور اور دیگر مسلمان گروہوں کے لیے حراستی مراکز کا ایک جال بچھا رکھا ہے جن کے بیگار کیمپوں میں جبری مشقت سے کام لیا جاتا ہے۔
چین اس بات کو مسترد کرتا ہے کہ سنکیانگ میں بیگار کے ذریعے مصنوعات تیار کی جاتی ہیں، لیکن امریکی حکومت اور انسانی حقوق کے متعدد گروپ یہی کہتے ہیں کہ وہاں پر چین نسل کشی کے ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہے۔
ری پبلکن پارٹی نے بائیڈن انتظامیہ اور کانگریس کے ڈیموکریٹ ارکان پر الزام لگایا ہے کہ وہ اس قانون سازی کے سلسلے میں سست روی سے کام لے رہے ہیں؛ چونکہ، بقول ان کے، اس عمل کے نتیجے میں صدر کے قابل تجدید توانائی کے ایجنڈا کی راہ میں مسائل کھڑے ہو سکتے ہیں۔
شمسی توانائی کے 'سولر پینل' کے پرزہ جات کی سب سے زیادہ رسد سنکیانگ فراہم کرتا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
وائٹ ہاؤس اور کانگریس کے ڈیموکریٹ ارکان اس الزام کو مسترد کرتے ہیں کہ ان کی جانب سے بل منظور کرنے کے عمل میں تاخیری حربوں سے کام لیا جا رہا ہے۔
چین میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مثال پیش کرتے ہوئے، بائیڈن انتظامیہ نے پیر کے روز اعلان کیا ہے کہ امریکی سرکاری عہدے دار بیجنگ میں منعقد ہونے والے سال 2022ء کے سرمائی اولمپکس کا بائیکاٹ کریں گے۔
ڈیموکریٹ قیادت والے ایوانِ نمائندگان نے بدھ ہی کے روز چین اور انسانی حقوق سے متعلق دو اقدامات کی واضح اکثریت سے منظوری دی۔ ایوانِ نمائندگان نے صفر کے مقابلے میں 428 ووٹوں سے ایک قرارداد منظور کی، جس میں کہا گیا ہے کہ حکومتِ چین سے تعاون کر کے دراصل بین الاقوامی اولمپک کمیٹی نے انسانی حقوق کے معاملے پر اپنے ہی اصولوں کی دھجیاں اڑائی ہیں۔
ایک اور قرارداد ایک کے مقابلے میں 427 ووٹوں سے منظور کی گئی، جس میں چین کی جانب سے ایغور اور دیگر مذہبی اور نسلی اقلیتی گروہوں کے ارکان کے خلاف ''جاری نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم'' پر چین کی مذمت کی گئی ہے اور اقوام متحدہ سے چین کے خلاف اقدام کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔