ایران کے جوہری سمجھوتے پر مقننہ کی جانب سے جائزے کے لیے 60 روز تک کی مدت جمعرات کو پوری ہوئی، جِس کے بعد اب اوباما انتظامیہ بین الاقوامی سطح کے معاہدے پر عمل درآمد کا آغاز کر سکتے ہیں۔
ریپبلیکن پارٹی کی اکثریت والی کانگریس سمجھوتے پر روک لگانے میں ناکام رہی ہے، حالانکہ دونوں ایوانوں میں معاہدے کی سخت مخالفت دیکھنے میں آئی تھی۔
ریپبلیکن پارٹی کے سینیٹر، جان کورنائن کے بقول، ’یہ حقیقت ہے کہ یہ ایک بیکار سمجھوتا ہے‘۔
سینیٹ میں ڈیموکریٹ پارٹی کے قائد، ہیری ریڈ کے الفاظ میں، ’ایران کے ساتھ سمجھوتا برقرار رہے گا‘۔
جمعرات کے روز سینیٹ کے ریپبلیکن ارکان نے اس معاہدے کی نامنظوری کی ایک آخری کوشش کرتے ہوئے، ایک بل پیش کیا جس میں کہا گیا تھا کہ جب تک ایران اسرائیل کو تسلیم اور قید کے گئے تمام امریکیوں کو رہا نہیں کرتا، تب تک اُس کے خلاف امریکی تعزیرات جاری رکھی جائیں۔
ایوان کے اکثریتی قائد، مِچ مکونیل کے بقول، ’ہم ایران کو اس قابل نہیں بنانا چاہتے ہیں کہ وہ جوہری بم بنانے کے قابل ہو اور تعزیرات میں نرمی کی صورت میں اُسے اربوں ڈالر رقوم میسر آئیں، جب کہ وہ کم از کم پہلے اسرائیل کو تحفظ کی یقین دہائی کرائے؛ کیا ہم اس بات کا بھی مطالبہ نہ کریں کہ وہ قید امریکیوں کو رہا کرے جو برسوں سے ایرانی قید کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں‘۔
اس اقدام کو روکنے کے لیے تمام ڈیموکریٹس یکجا ہوئے، بالکل ایسے ہی جیسا کہ سارے جوہری معاہدے کو نامنظور کرنے کے بارے مین قرارداد کے وقت اکٹھا ہوئے تھے۔
سینیٹر ٹام کارپر کے الفاظ میں، ’یرغمالیوں کی رہائی کو یقینی بنانے کا بہترین طریقہ، اور اُس دِن کو جلد لانے کے لیے جب اسرائیل کے ایران کے ساتھ کسی قسم کے تعلقات ہوں، جب کہ کئی برسوں سے ایسا نہیں، وہ اس صورت میں ممکن ہوسکتا ہے کہ ہمارے منصوبے پر عمل کیا جائے، جس سے ایرانیوں کے لیے جوہری ہتھیار بنانا مشکل ترین کام بن جائے گا، اور اگر وہ ایسا کرتے ہیں، تو ہمیں اس کا پتا چل جائے گا‘۔
سمجھوتے کو نامنظور کرنے کی قرارداد امریکی ایوانِ نمائندگان سے آسانی سے منظور ہوگئی تھی۔ لیکن، سینیٹ کے اقدام کے بغیر وہ کانگریس کی منظوری حاصل نہیں کر سکتا تھا۔
لہٰذا، کئی ہفتوں کے زوردار متنازع مباحثے کے باوجود، کانگریس معاہدے پر سرکاری طور پر خاموش ہے، جس سے صدر براک اوباما کو اس پر عمل درآمد کی چھٹی مل گئی ہے۔
پھر بھی، ریپبلیکن کہتے ہیں کہ یہ معاملہ ابھی طے نہیں ہوا۔
کورنائن کے الفاظ میں، ’صدر براک اوباما کی صدارتی میعاد کے بعد اس معاہدے کی پابندی باقی نہیں رہے گی‘۔
اُن کے بقول، ’یہ کوئی قانونی دستاویز نہیں ہے؛ یہ معاہدہ نہیں ہے۔ یہ ایک سیاسی سمجھوتا ہے۔ اس لیے، میں سمجھتا ہوں کہ اگلا صدر اس بات سے آگاہ ہے کہ اس سمجھوتا کا تیا پانچا کرنے اور ایک نیا معاہدے کرنے کی اُنھیں مکمل آزادی ہوگی‘۔
مختصر یہ ہے کہ ریپبلیکن پارٹی کے تقریباً تمام صدارتی امیدواروں نے طے کر لیا ہے کہ اگلے برس کامیابی کی صورت میں، وہ اسے مسترد کردیں گے۔ ادھر، ڈیموکریٹک پارٹی کےتمام امیدوار اس سمجھوتے کی حمایت کرتے ہیں۔ اس لیے جب صدر اوباما اپنے فخریہ تاریخ ساز سمجھوتے پر عمل درآمد کرتے ہیں، تو اُن کی جگہ لینے کے متمنی امیدوار اِس پر مباحثہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔