ایران کے رہبر اعلیٰ نے کہا ہے کہ نعرہ ’مرگ بر امریکہ‘ سے مراد امریکی عوام نہیں، بلکہ امریکی پالیسیاں ہیں۔ اُنھوں نے یہ کلمات منگل کے روز اپنے سرکاری ویب سائٹ پر کہے ہیں۔
آیت اللہ خامنہ اِی نے اِس نعرے سے متعلق یہ بات ایرانی طالب علموں کے ساتھ ملاقات کے دوران کہی، جو چار نومبر، 1979ء میں تہران میں امریکی سفارت خانے پر دھاوا بولے جانے کے واقعے کی سالگرہ سے ایک روز پہلےکہی۔ مسلح طلبا نے سفارت خانے کے احاطے پر قبضہ جما کر 444 دِنوں تک 52 امریکیوں کو یرغمال بنائے رکھا تھا۔
تب سے، دونوں ملکوں کے درمیان کوئی سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔ تاہم، موجودہ صدر حسن روحانی نے تعلقات میں بہتری لانے کی کوششیں کی ہیں، جن میں گذشتہ موسم گرما کے دوران عالمی طاقتوں کے ساتھ سنگ میل نوعیت کا جوہری سمجھوتا شامل ہے۔
خامنہ اِی نے کہا کہ ’اس نعرے کا مقصد امریکی عوام کی موت نہیں ہے۔ نعرے کا مطلب مرگ بر امریکی پالیسیاں اور غرور ہے‘۔ اُنھوں نے کہا کہ اِس نعرے کو ایران میں ’ٹھوس حمایت‘ حاصل ہے۔
ایرانی حکومت میں خامنہ اِی اور سخت گیر افراد امریکہ سے شدید خائف ہیں اور اس کی پالیسیوں کو ملک کے لیے خطرے کا باعث خیال کرتے ہیں۔
رہبر اعلیٰ نے کہا ہے کہ امریکہ ایران میں نئے افراد پر اثرانداز ہونے کی کوششیں کر رہا ہے، تاکہ وہ ایرانی قوم کے ساتھ ’مخاصمت کا شہرہ‘ مٹا سکے۔
اُنھوں نے طالب علموں پر زور دیا کہ وہ امریکہ پر بھروسہ نہ کریں، یہ کہتے ہوئے کہ ’کیمرہ کے سامنے امریکی آنسو بہاتے ہیں کہ وہ لڑائی کے خلاف ہیں، جب کہ وہی لوگ یہودیوں کے ہاتھوں غزہ میں قتل کیے جانے والے سینکڑوں بچوں اور مغربی کنارے میں ہونے والے حملوں پر دکھ کا اظہار تک نہیں کرتے۔ پھر کیمرے کے سامنے اُن کے آنسو بہانے کو کس طرح مخلصانہ عمل قرار دیا جاسکتا ہے؟‘
خامنہ اِی نےاپنے انتباہ کو دہرایا کہ امریکہ، برطانیہ، فرانس، روس، چین اور جرمنی کے ساتھ جوہری سمجھوتا طے کرنے کے باوجود امریکہ پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ سمجھوتے میں جوہری پروگرام پر پابندیوں کے عوض ایران کے خلاف سخت معاشی تعزیرات میں نرمی برتنے کا وعدہ کیا گیا ہے۔
خامنہ اِی کے بقول، ’امریکی رویے کی نوعیت یہ ہے کہ ماضی کے مخاصمانہ عزائم کو جاری رکھا جائے، اور یہ قوم اِس بات کو ہرگز نہیں بھولے گی‘۔