سعودی عرب کا ایک خفیہ فضائی اڈہ امریکہ کے استعمال میں ہے جسے 'سی آئی اے' ڈرون حملوں کے لیے استعمال کر رہی ہے۔
واشنگٹن —
امریکی ذرائع ابلاغ میں آنے والی اطلاعات میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ سعودی عرب کا ایک خفیہ فضائی اڈہ امریکہ کے استعمال میں ہے جسے 'سی آئی اے' ڈرون حملوں کے لیے استعمال کر رہی ہے۔
موقر امریکی روزنامے 'واشنگٹن پوسٹ' میں بدھ کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق مذکورہ ہوائی اڈہ دو سال قبل امریکی حکام کی ایما پر بنایا گیا تھا جس کا مقصد خطے میں موجود 'القاعدہ' کے شدت پسندوں کی تلاش کا کام تیز کرنا تھا۔
امریکی خفیہ ایجنسی 'سی آئی اے' کے حکام نے مذکورہ رپورٹ پر ردِ عمل ظاہر کرنے سے معذوری ظاہر کی ہے۔
'واشنگٹن پوسٹ' کے مطابق 'وہائٹ ہائوس' کے ذمہ داران نے ان سے سعودی عرب میں موجود اس ہوائی اڈے کے متعلق خبر شائع نہ کرنے کی درخواست کی تھی کیوں کہ اس سے، وہائٹ ہائوس کے ذمہ داران کے بقول، شدت پسندوں کی تلاش کا کام متاثر ہوسکتا تھا۔
تاہم اخبار نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ انہیں منگل کی شب اطلاع ملی کہ ایک دوسرا اخبار مذکورہ ہوائی اڈے کی تفصیلات شائع کرنے والا ہے جس کے باعث اس رپورٹ کی اشاعت کا فیصلہ کیا گیا۔
اخبار نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ مذکورہ ہوائی اڈے سے پرواز کرنےو الے ایک ڈرون نے ہی یمن میں موجود القاعدہ کے اہم رہنما انور الاولکی پر میزائل حملہ کیا تھا جس میں وہ مارے گئے تھے۔
رپورٹ کے مطابق خطے میں 'القاعدہ' کے اہداف پر کیے جانے والے کئی دیگر ڈرون حملوں میں بھی یہی اڈہ استعمال کیا گیا۔
اخبار نے لکھا ہے کہ امریکہ کے کئی نشریاتی اور اخباری اداروں کو گزشتہ ایک برس سے سعودی ہوائی اڈے کے 'سی آئی اے' کے زیرِ استعمال ہونے کے متعلق علم تھا لیکن امریکی انتظامیہ کی درخواست پر یہ خبر شائع یا نشر نہیں کی گئی تھی۔
بدھ کو ہی اپنی ایک رپورٹ میں اخبار 'نیو یارک ٹائمز' نے دعویٰ کیا ہے کہ اس خفیہ ہوائی اڈے کے قیام پر سعودی حکام کو راضی کرنے کے لیے 'وہائٹ ہائوس' میں انسدادِ دہشت گردی کی سرگرمیوں کے نگران جان برینن نے اہم کردار ادا کیا تھا۔
خیال رہے کہ جان برینن کو صدر براک اوباما نے اپنی دوسری مدتِ صدارت کے لیے 'سی آئی اے' کا سربراہ نامزد کیا ہے اور وہ اپنی اس نامزدگی کی توثیق کے لیے جمعرات کو امریکی سینیٹ کی کمیٹی کے سامنے پیش ہورہے ہیں۔
امکان ہے کہ اس سماعت کے دوران میں انہیں ان خبروں پر امریکی سینیٹرز کے سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
موقر امریکی روزنامے 'واشنگٹن پوسٹ' میں بدھ کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق مذکورہ ہوائی اڈہ دو سال قبل امریکی حکام کی ایما پر بنایا گیا تھا جس کا مقصد خطے میں موجود 'القاعدہ' کے شدت پسندوں کی تلاش کا کام تیز کرنا تھا۔
امریکی خفیہ ایجنسی 'سی آئی اے' کے حکام نے مذکورہ رپورٹ پر ردِ عمل ظاہر کرنے سے معذوری ظاہر کی ہے۔
'واشنگٹن پوسٹ' کے مطابق 'وہائٹ ہائوس' کے ذمہ داران نے ان سے سعودی عرب میں موجود اس ہوائی اڈے کے متعلق خبر شائع نہ کرنے کی درخواست کی تھی کیوں کہ اس سے، وہائٹ ہائوس کے ذمہ داران کے بقول، شدت پسندوں کی تلاش کا کام متاثر ہوسکتا تھا۔
تاہم اخبار نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ انہیں منگل کی شب اطلاع ملی کہ ایک دوسرا اخبار مذکورہ ہوائی اڈے کی تفصیلات شائع کرنے والا ہے جس کے باعث اس رپورٹ کی اشاعت کا فیصلہ کیا گیا۔
اخبار نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ مذکورہ ہوائی اڈے سے پرواز کرنےو الے ایک ڈرون نے ہی یمن میں موجود القاعدہ کے اہم رہنما انور الاولکی پر میزائل حملہ کیا تھا جس میں وہ مارے گئے تھے۔
رپورٹ کے مطابق خطے میں 'القاعدہ' کے اہداف پر کیے جانے والے کئی دیگر ڈرون حملوں میں بھی یہی اڈہ استعمال کیا گیا۔
اخبار نے لکھا ہے کہ امریکہ کے کئی نشریاتی اور اخباری اداروں کو گزشتہ ایک برس سے سعودی ہوائی اڈے کے 'سی آئی اے' کے زیرِ استعمال ہونے کے متعلق علم تھا لیکن امریکی انتظامیہ کی درخواست پر یہ خبر شائع یا نشر نہیں کی گئی تھی۔
بدھ کو ہی اپنی ایک رپورٹ میں اخبار 'نیو یارک ٹائمز' نے دعویٰ کیا ہے کہ اس خفیہ ہوائی اڈے کے قیام پر سعودی حکام کو راضی کرنے کے لیے 'وہائٹ ہائوس' میں انسدادِ دہشت گردی کی سرگرمیوں کے نگران جان برینن نے اہم کردار ادا کیا تھا۔
خیال رہے کہ جان برینن کو صدر براک اوباما نے اپنی دوسری مدتِ صدارت کے لیے 'سی آئی اے' کا سربراہ نامزد کیا ہے اور وہ اپنی اس نامزدگی کی توثیق کے لیے جمعرات کو امریکی سینیٹ کی کمیٹی کے سامنے پیش ہورہے ہیں۔
امکان ہے کہ اس سماعت کے دوران میں انہیں ان خبروں پر امریکی سینیٹرز کے سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔