امریکی قانون ساز اس ہفتے ایک اہم قدم اٹھا رہے ہیں جس کا مقصد عشروں سے جاری اس صدارتی اختیار کو ختم کرنا ہے جس کے تحت صدرجنگ کی اجازت دینے کا مجاز ہے۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کانگریس کی اتھارٹی پر زور دینے والی اس کوشش کی حمایت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ امریکی سینٹ میں اکژیتی یا میجورٹی لیڈر چک شومر نے پارٹی بنیاد سے بلند ہو کر اس دو طرفہ کوشش کو سراہتے ہوئے پچھلے ہفتے سینیٹ میں کہا تھا کہ ’’ ڈیموکریٹس اور ری پبلکنز دونوں ایک نتیجے پر پہنچے ہیں اور وہ یہ کہ ہمیں عراق کی جنگ کو اب ہمیشہ کے لیے پس پشت ڈال دینا چاہیئے اور ایسا کرنے سے مراد یہ ہے کہ ہمیں اس قانونی اختیار کو ختم کر دینا چاہیئے جس کے تحت جنگ کا آغاز کیا جاتا ہے۔
قانون سازوں نے 2001 اور 2002 میں فوجی طاقت کے استعمال کے اختیار یا AUMF کو ختم کرنے کے لیے حالیہ برسوں میں متعدد بار کوشش کی۔ اس اختیار کی منظوری11 ستمبر 2001 کے دہشت گرد حملوں کے تناظر میں دی گئی تھی۔ اس کے تحت امریکی صدور کو فوجی آپریشنز کی اجازت کا اختیار دے دیا گیا تھا جسے وہ کانگریس کی جانب سے منظوری کے آئینی حق کے بغیر استعمال کر سکتے تھے۔
اب تک ایسی ہر کوشش اس تنقید کے ساتھ ناکام ہو گئی کہ ایسے اختیارات کے خاتمے سے امریکہ کی قومی سلامتی اور بیرون ملک تعینات امریکی فوجیوں کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
عراق میں 2003 میں جنگ کی اجازت کے اختیار کو ختم کرنے کے علاوہ اس ہفتے سینیٹ کی خارجہ تعلقات کی کمیٹی کے سامنے ایک اور قانون بھی زیر غور ہو گا کہ وہ 1991میں دیے گئے اس اختیار کو بھی ختم کریں جس کے تحت اس وقت کے صدر جارج ہربرٹ واکر بش نے عراق میں فوج بھیجنے کی اجازت دی تھی ۔
اس قانون کو پیش کرنے والے معاون شریک ری پبلکن سینیٹر ٹوڈ ینگ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’’عراق مشرقِ وسطیٰ میں سلامتی اور استحکام کو فروغ دینے میں امریکہ کا اہم حلیف ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ان قوانین کی وجہ سے تیکنیکی طور پر عراق ابھی بھی امریکہ کا دشمن ہے۔‘‘
سینیٹر ٹوڈ ینگ مزید کہتے ہیں کہ ’’اس غلطی کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔کانگریس کو بہر صورت اپنا فرض ادا کرنا چاہیئے اور سنجیدگی سے یہ فیصلہ کرنا چاہیئے کہ امریکہ کسی جنگ کا فیصلہ نہ کرے اور بھرپور انداز میں یہ کہے کہ ہم جنگ نہیں کر رہے۔‘‘
دونوں پارٹیوں کے صدور نے 2002 میں جنگ کی اجازت دینے والے اختیار کو اس کے اصل مقصد سے ہٹ کر فوجی اقدام کے جواز کے لیے استعمال کیا ہے۔
2014 میں ڈیموکریٹک صدر براک اوباما نے کانگریس کی منظوری کے بغیر عراق اور شام میں داعش کے خلاف فوجی حملوں کے لیے اس اختیار کو جواز بنایا۔ 2020 میں ری پبلکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسی اختیار کے تحت عراق میں حملے کی اجازت دی جس میں ایرانی جنرل قاسم سلیمانی ہلاک ہوئے۔
اب امریکی قانون سازوں کی ایک بڑی تعداد یہ دلیل دیتے ہوئے اس قانون کی حمایت کر تی ہے کہ کانگریس نے عشروں تک اپنی آئینی ذمے داریوں سے غفلت برتی ہے ۔کانگریس نے 1942میں رومانیہ، بلغاریہ اور ہنگری کے خلاف جنگ کا اعلان کرنے کے لیے با ضابطہ طور پر اپنے اختیارات کا استعمال کیا تھا ۔ اس کے بعد اس نے اپنا یہ اختیار امریکی صدور کو بڑے اختیارات کے ساتھ منتقل کر دیا۔
SEE ALSO: صدر بائیڈن دوسرے اسٹیٹ آف دی یونین خطاب کے لیے تیارڈیمو کریٹک سینیٹر بھی اس قانون کو پیش کرنے والوں میں شامل ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ’’جنگ شروع کرنے اور اسے ختم کرنے کی ذمہ داری کانگریس پر عائد ہوتی ہے کیونکہ اپنے فوجیوں کو خطرے میں ڈالنے کے مضمرات پر محتاط انداز میں غوروفکر کی ضرورت ہے‘‘۔
خارجہ تعلقات کی کمیٹی سے منظوری کے بعد اسے سینیٹ میں بھیجا جائے گا جہاں ڈیموکریٹک پارٹی کو اکثریت حاصل ہے اور توقع ہے کہ اسے رپبلکنز کی درکار حمایت حاصل ہو سکے گی۔
تاہم رپبلکن اکثریت والے ایوان نمائندگان میں اس اختیار کے خاتمے کے امکانات نسبتا محدود ہو جائیں گے۔ ایوان کے سپیکر کیون میکارتھی کہتے ہیں کہ وہ ترمیمی عمل کی اجازت دیں گے جس سے مراد یہ ہے کہ سینیٹ سے اس اختیار کے خاتمے کی منظوری کو اس سال کے آخر میں سوچ بچارکے لیے نیشنل ڈیفنس آتھارائزیشن کے سالانہ عمل میں شامل کر دیا جائے گا۔
ڈیموکریٹس کی اکثریت والے ایوان میں جون 2021 میں اس اختیار کو ختم کرنے کی منظوری ایک ووٹ کی برتری سے دے دی گئی تھی لیکن اس وقت اسے سینیٹ سے منظوری حاصل نہیں ہو ئی تھی۔ 2001 میں افغانستان میں جنگ کی اجازت کا اختیار بدستور ایک قانون ہے جسے پہلے کی گئی کوششوں کے باوجود ختم نہیں کیا جا سکا۔
(وی او اے نیوز)