|
اسلام آباد—امریکہ نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ عام شہریوں کے آزادیٴ اظہارِ رائے اور اجتماع کے حقوق کی حفاظت کی جائے۔
امریکہ کا یہ بیان ایک ایسے موقع پر آیا ہے جب جیل میں قید سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کو فوج کی حمایت سے ہونے والے حکومتی کریک ڈاؤن کا سامنا ہے۔
امریکہ کے پاکستان کے لیے سفیر ڈونلڈ بلوم نے دارالحکومت اسلام آباد میں بدھ کو ایک سیمینار سے خطاب میں زور دیا ہے کہ پاکستان کے معاشی استحکام کے لیے آئین میں فراہم کردہ حقوق دینا لازم ہیں۔
ڈونلڈ بلوم نے کہا کہ تمام شہریوں کے لیے انسانی حقوق کا تحفظ جمہوریت کا صرف ایک بنیادی ستون ہی نہیں بلکہ یہ ایک مستحکم معاشرے کا اہم جز ہے جو شہریوں کی ملک کے مفادات کے لیے صلاحیتوں کے استعمال اور شراکت کی بھی عکاسی ہے۔
پاکستان کے کسی بھی سیاسی شراکت دار کا نام لیے بغیر امریکی سفیر نے کہا کہ استحکام کی عدم موجودگی میں سرمایہ کاری اور اقتصادی ترقی کے امکانات محدود ہو جاتے ہیں۔
امریکہ کے سفیر کا یہ بیان ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب پاکستان کو طویل عرصے سے سیاسی بحران کا سامنا ہے۔ یہ بحران اپریل 2022 میں تحریکِ عدم اعتماد کی منظوری کے ذریعے عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے جاری ہے۔
سابق وزیرِ اعظم اس وقت اڈیالہ جیل میں قید ہیں جنہیں مختلف مقدمات کا سامنا ہے جب کہ اقوامِ متحدہ کے مطابق عمران خان کی گرفتاری کی کوئی قانونی بنیاد نہیں ہے۔
تحریکِ انصاف کے خلاف جاری کریک ڈاؤن میں پارٹی کے سیکڑوں کارکنان کو گرفتار کیا جا چکا ہے جن میں خواتین بھی شامل ہیں۔
پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں تحریکِ انصاف کے مرکزی دفتر پر رواں ہفتے ہی پولیس نے چھاپہ مارا تھا اور اس میں پی ٹی آئی کے ترجمان رؤف حسن سمیت پارٹی کی میڈیا ٹیم کے متعدد ارکان کو گرفتار کر لیا تھا۔
سرکاری حکام نے گرفتار افراد پر ’ریاست مخالف مہم‘ چلانے کا الزام عائد کیا ہے۔
عمران خان کی جماعت کے رہنماؤں نے اس الزام کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ حالیہ گرفتاریاں پارٹی کو دباؤ میں لانے اور انتقامی کارروائیوں کا حصہ ہیں۔
شہباز شریف کی قیادت میں قائم اتحادی حکومت ملک کو در پیش شدید مالی اور اقتصادی مسائل سے نبرد آزما ہونے کی کوشش کر رہی ہے۔ حکومت نے عوامی سطح پر اعلان کیا ہے کہ وہ تحریکِ انصاف پر پابندی کا ارادہ رکھتی ہے کیوں کہ اس کے بقول یہ جماعت ریاست مخالف سرگرمیوں اور فوج کو بدنام کرنے میں ملوث ہے۔
SEE ALSO: پی ٹی آئی پر پابندی میں تاخیر؛ کیا حکومت سیاسی جماعتوں کو قائل کر سکے گی؟
وزیرِ اعظم شہباز شریف نے بدھ کابینہ اجلاس کی صدارت کے بعد گفتگو میں کہا تھا کہ پاکستان کے معصوم عوام، مسلح افواج اور مادرِ وطن کے خلاف اس طرح کی سرگرمیوں کی کسی بھی صورت میں اجازت نہیں دی جا سکتی۔
ملک کی سب سے بڑی اور پارلیمان میں سب سے زیادہ اراکین رکھنے والی جماعت پر پابندی کی دھمکی کے سبب سیاسی کشیدگی بڑھ گئی ہے۔
منگل کو امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں کانگریس کی ایک سماعت کے دوران امریکی اسسٹنٹ سیکریٹری آف اسٹیٹ ڈونلڈ لو کی گفتگو میں بھی تحریکِ انصاف کے خلاف کریک ڈاؤن اور ممکنہ پابندی کا معاملہ زیرِ بحث آیا تھا۔
امریکہ کی ڈیموکریٹک پارٹی کے رکنِ کانگریس اور کانگریس کی خارجہ امور کمیٹی کے سینئر رکن بریڈ شرمن نے عمران خان پر کوئی بھی سرکاری عہدہ رکھنے اور رواں برس فروری میں ہونے والے الیکشن میں پی ٹی آئی پر بلے کا انتخابی نشان استعمال کرنے ہر پابندی کو موضوعِ بحث بنایا۔
بریڈ شرمن نے کہا کہ ملک کے وزیرِ اطلاعات اور دیگر دو وزرا کہہ چکے ہیں کہ وہ پی ٹی آئی پر پابندی لگانا چاہتے ہیں۔
ان کے بقول تازہ اقدام یہ ہے کہ تحریکِ انصاف کا دفتر سیل کر دیا گیا ہے۔ ان کے قومی ترجمان اور متعدد خواتین کارکنان کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
SEE ALSO: پاکستان میں کسی سیاسی جماعت پر پابندی امریکہ کے لیے باعثِ تشویش ہوگی، محکمۂ خارجہ
بریڈ شرمن نے کہا کہ سب سے بہتر کام جو اس وقت ہو سکتا ہے وہ امریکہ کے سفیر ڈونلڈ بلوم کو کرنا ہے کہ وہ جیل جا کر عمران خان سے ملاقات کریں۔
امریکہ کے اسسٹنٹ سیکریٹری آف اسٹیٹ ڈونلڈ لو کا کہنا تھا کہ وہ اس معاملے پر پاکستان میں امریکہ کے سفیر ڈونلڈ بلوم سے تبادلۂ خیال کریں گے۔
بریڈ شرمن نے سوشل میڈیا پر بھی ایک بیان میں کہا کہ پاکستان کے مستقبل کا فیصلہ لازمی طور پر اس کے عوام نے کرنا ہے۔ یہ واضح ہے کہ تحریکِ انصاف پاکستان کی سب سے مقبول جماعت ہے۔
ان کے بقول انہیں عمران خان سے کئی باتوں پر اختلاف ہے۔ لیکن یہ پاکستان کے عوام کا حق ہے کہ وہ اپنے رہنما کا انتخاب کریں۔
سابق وزیرِ اعظم عمران خان کو جب گزشتہ برس گرفتار کیا گیا تھا تو ملک بھر میں پر تشدد احتجاج ہوا تھا۔ اس احتجاج میں بعض مشتعل افراد نے ملک کی طاقت ور فوج کی بعض تنصیبات کو بھی نقصان پہنچایا تھا۔
شہباز شریف کی قیادت میں قائم اتحادی حکومت اور فوج نے ان فسادات کو جواز بنا کر تحریکِ انصاف کے خلاف کارروائیوں اور عمران خان کی گرفتاری کا دفاع کیا ہے۔ حالیہ دنوں میں متعدد عدالتوں سے عمران خان کے حق میں فیصلے آئے ہیں۔
SEE ALSO: ایک سیاسی جماعت کو انتخابات سے نکال کر الیکشن کمیشن نے آئین کی خلاف ورزی کی: جسٹس اطہر من اللہ
رواں ہفتے ہی پاکستان کی سپریم کورٹ نے بھی اسمبلیوں کی مخصوص نشتوں کے حوالے سے تحریکِ انصاف کے حق میں فیصلہ دیا ہے اور قرار دیا کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو اس کے حق سے محروم رکھ کر آئین کی خلاف ورزی کی ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے پر اگر عمل درآمد ہوا تو اس سے تحریکِ انصاف پارلیمان میں مزید مضبوط اور حکمران اتحاد کمزور ہو جائے گا۔
سپریم کورٹ کے فیصلے نے حزبِ اختلاف اور آزاد نگراں اداروں کے ان الزامات کو تقویت دی ہے کہ رواں برس ہونے والے انتخابات میں اسٹیبلمنٹ کی حامی جماعتوں کے لیے دھاندلی کی گئی تاکہ پی ٹی آئی کو الیکشن میں بھر پور کامیابی حاصل کرنے سے روکا جا سکے۔
سابق وزیرِ اعظم عمران خان خود پر لگنے والے بدعنوانی، بغاوت اور دیگر الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں اور انہیں سیاسی مقدمات قرار دیتے رہے ہیں۔ ان کے بقول فوج کی ایما پر ان کے خلاف مقدمات قائم کیے گئے تاکہ انہیں اور ان کی جماعت کو دوبارہ اقتدار میں آنے سے روکا جائے۔
عمران خان مسلسل یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ ان کی جماعت کا ’چوری شدہ مینڈیٹ‘ انہیں واپس کیا جائے یا ایک غیر جانب دار الیکشن کمیشن کی نگرانی میں نئے انتخابات کرائے جائیں۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف اور ان کی اتحادی حکومت کو ملک کی طاقت ور اسٹیبلشمنٹ کی بھر پور حمایت حاصل ہے۔ شہباز شریف عمران خان کے بیانات کی تردید کرتے ہیں کہ اور کہتے ہیں کہ ان کی حکومت غیر منصفانہ طور پر عمران خان یا ان کی جماعت کو نشانہ نہیں بنا رہی۔
SEE ALSO: امریکی کانگریس کی قرارداد کے جواب میں قومی اسمبلی میں قرارداد منظور
ان کے بقول ان لوگوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا عزم کیا گیا ہے جو نو مئی 2023 کو فوجی تنصیابات پر حملوں میں ملوث ہیں۔
گزشتہ ماہ امریکہ کے ایوانِ نمائندگان میں ایک قرار داد منظور کی گئی تھی جس میں 368 ارکان نے اس کے حق جب کہ سات نے مخالفت میں ووٹ دیے تھے۔ قرارداد میں کہا گیا تھا کہ پاکستان میں انتخابات میں مداخلت اور بے ضابطگیوں کے الزامات کی آزادانہ اور مکمل تحقیقات کی جائیں۔
اسلام آباد نے امریکہ کے ایوانِ نمائندگان میں منظور ہونے والی اس قرار داد کے مطالبات کو مسترد کر دیا تھا۔