یورپی قانون سازوں کی امریکی اہل کاروں سے ملاقات

آنگلا مرخیل

امریکی انٹیلی جنس کے سارے پروگراموں پر مکمل نظر ثانی کی جانی جائے: امریکی سینیٹ میں انٹیلی جنس کمیٹی کی خاتون سربراہ، ڈائین فائنسٹائن کا مطالبہ
یورپی یونین کے قانون سازوں نے اُن اجلاسوں کا آغاز کیا ہے جِن کا مقصد امریکی اہل کاروں کو اُن الزامات کا ثبوت پیش کرنا ہے جِن میں کہا گیا ہے کہ امریکہ اپنے اتحادیوں کے خلاف وسیع پیمانے پر جاسوسی کر رہا ہے۔

تئیس ملکی یورپی پارلیمان نے پیر کے روز امریکی قانون سازوں اور متعدد حکومتی اداروں کے عہدے داروں کے ساتھ ملاقات کی، جِس میں وائٹ ہاؤس کی ’نیشنل سکیورٹی کونسل‘ شامل ہے۔ یہ بات چیت بدھ تک جاری رہے گی۔

اِن الزامات کےپیشِ نظر ، پیر کے روز امریکی سینیٹ میں انٹیلی جنس کمیٹی کی خاتون سربراہ، ڈائین فائنسٹائن نے مطالبہ کیا ہے کہ امریکی انٹیلی جنس کے سارے پروگراموں پر مکمل نظر ثانی کی جانی جائے، جِن کے بارے میں کیلی فورنیا سے تعلق رکھنے والی ڈیموکریٹ پارٹی کی رُکن کا کہنا ہے کہ اُنھیں اِس سے متعلق نہیں بتایا گیا تھا۔

تاہم، جاری سفارتی کوششوں کے باوجود، یورپی اہل کار اِس طریقہ کار کو تلاش کرنے کے لیے کوشاں ہیں کہ ماضی کے نگرانی کے پروگرام کی تفصیل فراہم کرنے کے لیے امریکہ پر دباؤ ڈالا جا سکے۔

اُنھیں اِس بات کی یقین دہانی بھی درکار ہے کہ اِس روایت کو ترک کیا جائے گا۔

ادھر پہلے موصول ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق، امریکہ کے ایک بڑے اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ صدر براک اوباما پانچ سال تک اس بات سے بے خبر رہے کہ اُن کے اپنے ملک کی انٹیلی جنس ایجنسی جرمنی کی چانسلر آنگلا مرخیل سمیت عالمی رہنماؤں کے فون ’ٹیپ‘ کرتی رہی۔

لیکن اخبار کے مطابق عالمی رہنماؤں کی نگرانی کا یہ پروگرام اب بند کر دیا گیا ہے۔

’وال اسٹریٹ جرنل‘ نے پیر کو اپنی رپورٹ میں نام ظاہر کیے بغیر امریکہ عہدیداروں کے حوالے سے کہا کہ صدر اوباما کو چند ماہ قبل ہوئے داخلی جائزے کے بعد ہی نگرانی کے اس معاملے کا عمل ہوا۔

اخبار کی خبر کے مطابق امریکہ کی نیشنل سکیورٹی ایجنسی ’این ایس اے‘ نے دنیا کے 35 رہنماؤں کے ٹیلی فون ’ٹیپ‘ کیے تھے، اور وائٹ ہاؤس کو اس پروگرام کا علم ہونے کے بعد این ایس اے نے اپنا بیشتر آپریشن روک دیا۔