پاکستان امریکہ تعلقات اور امریکہ کی نائب وزیر خارجہ وینڈی شرمن کے جنوبی ایشیا کے دورے کے بارے میں، واشنگٹن میں قائم 'فارن پالیسی کونسل' کے سینئر نائب صدر، ایلان برمن نے کہا ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات ''اس وقت ایک مشکل مرحلے میں ہیں''۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے، ایلان برمن نے کہا کہ یہ واضح نہیں کہ آئندہ دنوں کے دوران امریکہ پاکستان تعلقات کس سمت جائیں گے۔
کیونکہ، بقول تجزیہ کار، ''ایک جانب تو ایسا لگتا ہے کہ امریکہ کی بہت زیادہ توجہ جنوبی ایشیا اور جنوب مغربی ایشیا پر نہیں ہے اور دوسری جانب افغانستان کے مسئلے پر امریکہ کا پاکستان پر انحصار پہلے سے زیادہ بڑھ گیا ہے''۔
ایلان برمن نے کہا کہ امریکہ چاہے گا کہ پاکستان خطے کو مستحکم کرنے میں زیادہ سرگرم کردار ادا کرے۔
اس وقت امریکہ کی نائب وزیر خارجہ وینڈی شرمن خطے کے دورے پر ہیں؛ اور دورہ بھارت کے بعد اب پاکستان میں ہیں۔
تجزیہ کار نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ کی نائب وزیر خارجہ وینڈی شرمن کا خطے کا دورہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
بقول ان کے، ''بائیڈن انتظامیہ پاکستان پر زیادہ دباؤ ڈالنے میں دلچسپی نہیں رکھتی، بلکہ اسکی بھرپور توجہ ایشیا پر ہے، جہان چین کے ساتھ بڑی طاقتوں میں مسابقت کے نظریے سے صرف نظر کرکے فوج کی جانب سے زیادہ اسٹریٹیجک مسابقت اور صدر بائیڈن کی جانب سے ذمہ دارانہ مسابقت پر زور دیا جارہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خطے میں حالات کو قابو میں رکھا جائے''۔
اس سوال کے جواب میں کہ بھارت سے امریکہ کی زیادہ قربت پاکستان کے ساتھ اس کے تعلقات پر کس طرح اثر انداز ہو گی، ایلان برمن نے کہا کہ یہ صورت حال اسلام آباد کے لئے یقیناً تشویش کا باعث ہے۔ اور یہ کہ امریکی عہدیدار کے دورے میں یہ تبادلہ خیال کا موضوع بھی بنے گا۔
لیکن، انہوں نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس سلسلے میں توازن بہت ضروری ہے؛ ''اور بائیڈن حکومت کو یہی کرنے کی ضرورت بھی ہے''۔
ایلان برمن نے کہا کہ وہائٹ ہاؤس پاکستان کو یقین دہانی کرا سکتا ہے کہ امریکہ کا مکمل طور سے اسٹریٹیجک جھکاؤ بھارت کی طرف نہیں ہے اور وہ پاکستان کو بھی مدد دے گا۔ لیکن، بقول تجزیہ کار، سب سے زیادہ اہم بات ان دونوں کے ساتھ تعلقات میں توازن قائم رکھنا ہے۔
کانگریس کی ایک کمیٹی کے سامنے امریکہ کی قومی سلامتی کے سابق مشیر جنرل میک ماسٹر کی جانب سے پاکستان کو امداد دیے جانے کے خلاف بیان کے بارے میں ایلان برمن نے کہا کہ بہت سے لوگوں کی یہ سوچ ہے جو طالبان کے سلسلے میں پاکستان کے رویے سے مطمئن نہیں ہیں، جب کہ حکومت میں شامل بعض افراد کی بھی یہی سوچ ہے۔
لیکن، انھوں نے کہا کہ مجبوری یہ ہے کہ امریکہ کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی چارہ بھی نہیں ہے کہ پاکستان سے کہے کہ وہ خطے میں صورت حال کو مستحکم کرنے میں بھرپور کردار ادا کرے۔
انہوں نے کہا کہ ''امریکہ یقیناً پاکستان کو سزا دے سکتا ہے، لیکن اس سے صورت حال مستحکم نہیں ہو گی۔ وہ پاکستان کو کوئی سزا دیکر اسے اپنا رویہ تبدیل کرنے ہر مجبور نہیں کر سکتا''۔
بقول تجزیہ کار، پاکستان کو اپنا رویہ تبدیل کرنے پر آمادہ کرنے کے لئے، امریکہ کو تعمیری انداز اختیار کرنا ہوگا۔
پاکستانی تجزیہ کار اور بین الاقوامی امور کے ماہر، ڈاکٹر رسول بخش رئیس نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ فی الحال کچھ عرصے تک امریکہ-پاکستان تعلقات میں سرد مہری رہے گی۔
لیکن، بقول ان کے، پاکستان کی یہ کوشش ہو گی کہ تعلقات اگر اس سطح کے نہیں ہو سکتے جیسے سرد جنگ کے دوران تھے؛ لیکن ان میں مزید تلخی نہ آنے پائے۔
انھوں نے کہا کہ ''پاکستان کی یہ کوشش ہو گی کہ اپنے مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے جس حد تک بھی جا سکتا ہے جائے اور علاقائی امن و سلامتی کے مسائل، دہشت گردی کے خلاف مہم میں اسےامریکہ کے ساتھ حصہ لینا چاہیے اور آگے بڑھنا چاہیے''۔
ڈاکٹر رسول بخش رئیس نے کہا کہ ''پاکستان اتنا بھی ناپسندیدہ نہیں ہونا چاہتا کہ اسے ایران کی صفوں میں کھڑا کر دیا جائے۔ اور پاکستان نہیں چاہتا کہ خطے کے حوالے سے امریکہ کے جو تحفظات ہیں ان میں اضافہ کیا جائے اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان طالبان کو تسلیم کرنے میں پہل نہیں کر رہا''۔
انہوں نے امریکی نائب وزیر خارجہ وینڈی شرمن کے خطے کے دورے کے بارے میں کہا کہ ''اس کا مقصد بھی یہی نظر آتا ہے کہ امریکہ خطے کے حالات کے بارے میں پاکستان کے نظریات جاننا چاہتا ہے''۔
آڈیو رپورٹ:
Your browser doesn’t support HTML5