افغانستان کے پس منظر میں پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کے حوالے سے تینوں ممالک کے اعلیٰ حکام کی جانب سے حالیہ کچھ دنوں میں کئی بیانات سامنے آئے ہیں جن مین تازہ ترین پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ امریکہ پاکستان پر دباؤ ڈالنے کی بجائے افغانستان میں استحکام پر توجہ دے ۔ افغانستان کے لئے امریکہ کے سابق سفیررونلڈ نیومین کا کہنا ہے کہ بیانات کا مقصد ردعمل کی روشنی میں اگلی حکمت عملی کا تعین کرنا ہوتا ہے ۔
ان کا کہناہے کہ ہم سب جانتے ہیں کہ افغانستان میں مختلف لوگوں کے مفادات ہیں۔ پاکستان ، افغان حکومت اور عسکریت پسندوں کے بھی مفادات ہیں جن میں طالبان اور دیگر گروہ شامل ہیں ۔ کوئی بھی ایک دوسرے پر اعتماد نہیں کرتا۔ یہ ایک ایسامرحلہ ہے جس میں آپ بیان دیتے ہیں اور پھر دیکھتے ہیں کہ آیا آپ کسی ایک یا دوسرے سے بات چیت کر سکتے ہیں یا نہیں۔ یا ایک سے بات کرنے سے دوسرے پر دباؤ ڈالا جا سکتا ہے یا نہیں۔ یہ مذاکرا ت کے عمل کا حصہ ہے۔ مگر آپ کو ئی آخری فیصلہ نہیں کرتے کہ آپ ایک اقدام اٹھائیں گے یا دوسرا۔
پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں سرد مہری کے حالیہ دور کی روشنی میں کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ خطے میں دونوں ممالک کے مفادات ہم آہنگ نہ ہونے کی وجہ سے امریکہ کی مالی اور فوجی امداد کے ذریعے پاکستان کو اپنے ساتھ ملانے کی کوششیں ناکام ہوتی نظر آرہی ہیں اور دونوں ملک تعلقات کی موجودہ نوعیت کا تعین کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کارنیگی انڈاؤمنٹ فار پیس کے فیلو اور امریکن یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر اسٹیون ٹینکل کہتے ہیں کہ میرے خیال میں یہاں واشنگٹن میں اب لوگ سمجھ گئے ہیں کہ مالی امداد کے بل بوتے پر امریکہ پاکستان کو اپنے ساتھ تعاون پر رضامند نہیں کر سکتا ، تاہم ایسا افغانستان کے سیاسی نظام کی تشکیل میں پاکستان کے کردار کو تسلیم کرنے سے ممکن ہوگا ۔
اسٹیون کہتے ہیں کہ امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن کی طرف حقانی نیٹ ورک سے بات چیت کے امکان کو مسترد نہ کئے جانے کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ تسلیم کر رہا ہے کہ افغانستان میں سیاسی مصالحت کے لئے وہ ایسے عناصر کو اس عمل میں شامل کرنے کو تیار ہے جنہیں وہ بے شک پسند نہ کرتا ہو مگر ان سے بات چیت ضروری سمجھتا ہے ۔
پاکستان کے دفاعی اور سیاسی امور کے تجزیہ نگار اکرام سہگل کا کہنا ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں بہتری ممکن ہے لیکن اس بارے میں زیادہ توقعات وابستہ نہیں کرنی چاہئیں ۔
واشنگٹن کے ماہرین کا خیال ہے کہ امریکی وزیر خارجہ کے دورہ پاکستان اور افغانستان کا مقصد تینوں ملکوں کے درمیان گزشتہ کچھ عرصے میں پیدا ہونے والےان اختلافات کو اگر مکمل طور پر دور کرنا نہیں ، توبھی تعاون کی صورتحال کو بہتر بنانا ہے ، جو 2014ء میں افغانستان سے امریکی افواج کی واپسی کے ٹائم ٹیبل پر اثر انداز ہو سکتے ہیں ۔ کیونکہ ماہرین کے مطابق خطے میں استحکام کے لئے پاکستان سمیت ان تمام عناصر سے بات چیت اہمیت اختیار کرتی جا رہی ہے ،جن کے مفادات افغانستان سے وابستہ ہیں ۔