پاکستان کے وفاقی وزیر براۓ منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا ہے کہ حالیہ ضمنی انتخابات میں شکست کی وجہ آئی ایم ایف سےمعاہدے کے لیے ضروری سخت معاشی اقدامات تھے۔
وائس آف کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں انہوں نے مزید کہا کہ ووٹ کو عزت دو کا ان کی جماعت کا نظریہ اسی بات کا متقاضی ہے کہ فوج کو سیاست میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ پاکستان کی اتحادی حکومت امریکہ کے ساتھ ماضی کی طرح محض سیکیورٹی امور پر نہیں بلکہ اقتصادی تعاون اور باہمی احترام کی بنیاد پر مضبوط تعلقات استوار کرنے کی خواہاں ہے۔
امریکہ کے دورے پر آئے وفاقی وزیر احسن اقبال نے وائس آف امریکہ کے لیے ارم عباسی کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں پاکستان میں پنجاب کے ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ نواز کی شکست پر بھی اظہار خیال کیا۔
اُن کا کہنا تھا کہ "ہماری شکست کے بارے میں تجزیہ کرتے ہوئے یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ یہ وہ نشتیں ہیں جو ہم پہلے بھی عام انتخابات میں ہارے ہوئےتھے البتہ اگر ہمیں آئی ایم ایف کی وجہ سے سخت معاشی اقدامات نہ کرنے پڑتے تو ہم ان 17 میں سے بھی 15سیٹیں جیت سکتے تھے۔”
خیال رہے کہ 17 جولائی کو ہونے والے ضمنی انتخابات میں تحریکِ انصاف نے مسلم لیگ(ن)کے گڑھ سمجھے جانے والے صوبے پنجاب میں 20 نشستوں میں سے 15پر کامیابی حاصل کی ہے جس کی وجہ سے حکومت پر عام انتخابات کروانے کا دباؤ بڑھ گیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
'حکومت نے مدت پوری نہ کی تو آئی ایم ایف معاہدے پر عمل درآمد میں مشکل ہو گی'
وفاقی وزیر احسن اقبال کا کہنا تھا اگر ان کی حکومت اپنی مدت پوری نہیں کرتی تو آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیل پر عملدرآمدمیں مشکل ہو گی کیونکہ عبوری حکومت کے پاس فیصلہ سازی کے لیے درکار آئینی قوت نہیں ہوتی۔ ان کا کہنا ہے پاکستان کی معیشت کو بچانے کے لیے ان کی حکومت نے ایک بہت بڑی قیمت ادا کی ہے۔
اس سوال کے جواب میں کہ پاکستان میں سیاسی جماعتوں پر الزام رہتا ہے کہ وہ جرنیلوں کی جنگ میں سیاسی مہرہ بن جاتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ پاکستان میں جرنیلوں کی جنگ ہے یا نہیں البتہ یہ ضرور کہوں گا کہ عمران خان پاکستان کو ون پارٹی سٹیٹ بنانا چاہتے تھے۔ وہ حزب اختلاف کو ختم کرنا چاہتے تھے تاکہ وہ ریاستی اداروں پر قابض ہو جائیں۔ یہ سب ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔
احسن اقبال نے کہا کہ ان کی پارٹی باقی اتحادی جماعتوں کے ساتھ عدم اعتماد کی قرارداد پارلیمنٹ کے اندر لے کر آئی تھی۔ اور ان کے بقول ان کی جماعت کا ’’ ووٹ کو عزت دو‘‘ کے نعرے کے پیچھے بنیادی نظریہ ہی یہی تھا کہ فوج کو سیاست میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔
اس سلسلے میں تحریک انصاف کا موقف ہے کہ وہ امریکہ سمیت تما م ملکوں کے ساتھ دوستانہ مراسم رکھنا چاہتی ہے، لیکن کسی کی جنگ کا حصّہ نہیں بنے گی۔
ضمنی انتخابات کے نتائج کے بارے میں تحریک انصاف کے رہنماوں نے باور کرایا کہ یہ حکومت کی تبدیلی کے بارے میں عمران خان کے موقف کی تائید ہے اور عوام کی اکثریت نے تحریک انصاف کے بیانیے کے حق میں آواز بلند کی ہے۔
آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق پارلیمان سے منظور ہونے والے قانون کے حوالے سے احسن اقبال کا کہنا تھا کہ وہ اس بارے میں مختلف رائے رکھتے ہیں۔
'اب کوئی آرمی چیف مقررہ مدت پر ریٹائر ہو گا تو اسے 'ولی اللہ' کا لقب دینا چاہیے'
’’ میری ذاتی رائے میں یہ ملک کے مفاد میں نہیں اور خود فوج کے پروفیشنلزم کے تقاضوں کے مطابق بھی نہیں ہے۔ اور جس قسم کا قانون پاس کیا گیا ہےاس کے بعد اگر کوئی آرمی چیف اپنی مقررہ مدت پر ریٹائر ہو گا تو اس کے ساتھ ’ولی اللہ‘ کا لقب بھی دینا چاہیے۔‘‘
SEE ALSO: کیا تحریکِ انصاف کا اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ آئندہ انتخابات تک برقرار رہے گا؟اس قانون کے پاس ہونے کے بعد پاکستان میں بیشتر سماجی کارکنوں نے اس پر تنقید کی تھی۔ تحریک انصاف کی حکومت میں پاس ہونے والے اس بل پر اس وقت کی اپوزیش اور آج کی حکومتی جماعتوں نے بھی تائید کی تھی۔
احسن اقبال نے پاکستان میں صحافیوں اور بلاگرز کے خلاف مقدمات کے حوالے سے کہا کہ ہمارے دور میں عدلیہ آزاد ہے۔ ہم آزادی اظہار کا احترام کرتے ہیں۔ اگر کسی پر مقدمہ بنا ہے تو عدالت نے اسے فوراً انصاف دیا ہے۔
رکن قومی اسمبلی علی وزیر کی قید کے حوالے سے احسن اقبال کا کہنا تھا کہ حکومت کو کوئی ایسی بنیاد فراہم نہیں کرنی چاہیے جس سے کسی کو محسوس ہو کہ ان کے ساتھ امتیازی سلوک ہو رہا ہے۔
وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اور ترقی احسن اقبال نے واشنگٹن میں بدھ کے روز امریکہ کے کچھ اراکین کانگریس سے بھی ملاقات کی۔ ان ملاقاتوں کے بعد انہوں نے پاکستان کے سفارت خانے میں صحافیوں کو بریفنگ بھی دی۔
وائس آف امریکہ کے لیے علی عمران کی طرف سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں احسن اقبال نے کہا ہے کہ پاکستان ماضی کی طرح محض سیکیورٹی سے متعلق امور پر امریکہ کے ساتھ تعلقات کی بنیاد رکھنےکے بجائے اقتصادی تعاون اور باہمی احترام کی بنیاد پر مضبوط تعلقات استوار کرنے کا خواہاں ہے۔
'پاکستان ایٹمی طاقت ہے، اسے کوئی ڈکٹیشن نہیں دے سکتا'
واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے میں امریکی قانون سازوں اور محکمہ خارجہ کے حکام سے بات چیت کے بعد احسن اقبال نے سابق وزیر اعظم عمران خان کے امریکہ پر پاکستان میں حکومت کی تبدیلی کی مبینہ سازش کے الزامات کے متعلق سوال کے جواب میں کہا کہ عمران خان پاکستان کی نفسیاتی کیفیت کو تباہ کر رہے ہیں۔انہوں نے کہ اسلام آباد میں اتحادی پارٹیوں کی حکومت امریکہ سے وسیع البنیاد تعلقات قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
’’ہماری توجہ اس بات پر ہے کہ ہم امریکہ سے تعلقات کو سیکیورٹی کی بجائے اقتصادی اور ترقیاتی شعبے میں استعمال کریں اس سے ان میں ایک مستقل مزاجی استحکام اور تسلسل رہے گا۔‘‘
انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے ، پاکستان کو کوئی بھی ڈکٹیشن نہیں دے سکتا، پاکستان کو کوئی غلام نہیں بنا سکتا۔ عمران خان پاکستان کی نفسیاتی کیفیت کو تباہ کر رہے ہیں، وہ پاکستان کو یہ بتار ہے ہیں کہ ہم غلام ہیں، ہم غلام نہیں ہیں ، ہم کسی کے بھی غلام نہیں ہیں۔ ایٹمی طاقت کو کو ئی بھی ڈرا دھمکا نہیں سکتا، البتہ جب ایٹمی طاقت معاشی طور پر کمزور ہوجائے تو وہ، ان کے بقول، کمزور ہو جاتی ہے۔"
اپنے دورے کے سلسلے میں کی گئی ملاقاتوں کے بارے میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان کا معاہد ہ حتمی ہے اور پاکستان کو اگست میں ایک بلین ڈالر کی قسط جاری ہو گی۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کے حکام کے ساتھ ملاقاتوں میں ادارے نے قطعاً نئی شرائط کی کو ئی بات نہیں کی۔
لیکن پاکستان عمران خان کی سابقہ حکومت کی طرف سے روکی گئی اصلاحات کے عمل کو آگے بڑھائے گا تاکہ قومی معیشت کو دیرپا ترقی کی راہ پر گامزن کیا جاسکے۔ موجودہ حکومت آئی ایم ایف کے کہنے کے مطابق اقتصادی اصلاحات پر عمل کرنے کے لیے کمر بستہ ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
پاکستان کی خارجہ پالیسی کے بارے میں احسن اقبال نے کہا کہ اس کے چار اہم ستون ہیں جن میں امریکہ، چین، یورپی یونین اور خلیجی ممالک سے قریبی تعلقات کو آگے بڑھانا شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان میں سے کسی ایک سے بھی بہتر تعلقات کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ دوسرے کسی ملک سے تعلقات میں کمی آگئی ہے۔ انہوں نے اس کہا کہ امریکی حکام کے ساتھ ملاقاتوں میں کسی نے بھی پاکستان کے چین کے ساتھ تعلقات کے ضمن میں دو طرف تعلقات میں کسی تنازع کا کوئی ذکر نہیں کیا۔
پاکستان کے لیے امریکہ کی اہمیت کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ امریکہ پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے اور پاکستان کی کوشش یہ ہونی چاہیے کہ امریکہ کو اپنی برآمدات میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کرے۔
احسن اقبال نے بتایا کہ وزیر اعظم شہباز شریف کی سربراہی میں اتحادی حکومت نے " یو ایس پاکستان نالج کوری ڈور" نامی پروگرام کو بحال کردیا ہے جس کے تحت پاکستان کے ایک ہزار طالب علم امریکی یونیورسٹیوں سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کریں گے تاکہ وطن واپس آکر ملک کی ترقی کو جدید خطوط پر استوار کرنے میں اہم کردار ادا کر سکیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
پاکستان کے وفاقی وزیر نے کہا کہ امریکہ زراعت کے شعبے میں پاکستان کو اہم ٹیکنالوجی فراہم کرکے تعاون کر سکتا ہے اور ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے میں بھی مدد کرسکتا ہے۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبہ میں پاکستان کی اہمیت پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان دنیا کی سب سے بڑی فری لانسنگ منڈیوں میں سے ایک ہے اور آئی ایم ایف کے معاہدے کے بعد پاکستان امید کرتا ہے کہ امریکی اور بین الاقوامی سرمایہ کار پاکستان کا رخ کریں گے۔
واشنگٹن کے دورے پر آئے وفاقی وزیر نے پاکستان کی اندرونی سیاست پر بھی سوالات کے جوابات دیے۔
سابق وزیر اعظم عمران خان کے اندازِ سیاست پر کڑی تنقید کرتے ہوئے احسن اقبال نے کہا کہ وہ نہیں جانتے کہ موجودہ حکومت کے زیرِ انتظام پنجاب کے ضمنی انتخابات میں کامیابی بھی اگر انہیں مطمئن نہیں کر سکتی تو انہیں کیا مطمئن کر سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کو یوکرین کی جنگ کے بعد ایک بحرانی کیفیت کا سامنا ہے ۔ اور اتحادی پارٹیوں کی حکومت میں ملک کے تمام حصوں سے لوگ شامل ہیں اور یہ چیز پاکستان کے استحکام کے لیے ایک بڑا موقع فراہم کرتی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں احسن اقبال نے کہا کہ پاکستان کے قومی فیصلے لندن میں نہیں بلکہ اتحادی حکومت میں شامل پارٹیوں کی مشاورت سے پاکستان میں ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ نواز شریف مسلم لیگ کے قائد ہیں لیکن یہ کہنا غلط ہے کہ حکومتی فیصلے پاکستان کے بجائے لندن میں ہوتے ہیں۔