سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف پارلیمان میں تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد نئی حکومت کے قیام سے اب تک تحریک انصاف کی حکمتِ عملی کو بعض مبصرین کامیاب قرار دے رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کو عمومی طور پر اسٹیبشلمنٹ کی حلیف جماعت قرار دیا جاتا رہا ہے البتہ اب وہ خود اس تاثر کو ختم کرنے میں مصروف ہے۔
تحریکِ انصاف نے مسلم لیگ(ن) کے گڑھ سمجھے جانے والے صوبے پنجاب میں 20 نشستوں پر ضمنی الیکشن میں کامیابی حاصل کرتے ہوئے حکومت اور اداروں پر دباؤ میں اضافہ کیا ہے جب کہ مخالف جماعتوں کے لیے خطرے کی گھنٹی بھی بجا دی ہے۔
ایسے میں آئندہ انتخابات تک تحریکِ انصاف کی حکمتِ عملی کیا ہو سکتی ہے، کیا تحریک انصاف قومی اسمبلی میں واپس آکر موجودہ حکومت ختم کر سکتی ہے اور کیا صوبائی حکومتیں تحلیل کرکے فوری عام انتخابات کی طرف جایا جاسکتا ہے جب کہ پی ٹی آئی کی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف جاری مہم کیا آئندہ انتخابات تک جاری رہے گی؟ ایسے بہت سے سوالات پر مبصرین مختلف آرا کا اظہار کر رہے ہیں۔ البتہ تحریکِ انصاف کے رہنما اسٹیبلشمنٹ کے خلاف سخت بیانات بھی دے رہے ہیں۔سابق وفاقی وزیر اور پی ٹی آئی کے رہنما فواد چوہدری کہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کے منہ کو لہو لگا ہوا ہے۔ انہوں نے سیاسی فیصلے کرنے ہیں۔
فواد چوہدری کے مطابق یہ نہیں ہو سکتا کہ جج اور جنرل بند کمروں میں فیصلے کرتے رہیں، اب فیصلہ کرنا ہے کہ انقلاب ووٹ سے آنا ہے یا جس طرح سری لنکا میں ہوا۔
خیال رہے کہ سری لنکا میں عوام نے خراب معاشی صورتِ حال کے سبب حکومت کے خلاف احتجاج شروع کیا تھا جس کے بعد وزیرِ اعظم اور صدر مستعفی ہو گئے تھے۔
فواد چوہدری نے مزید کہا کہ پاکستان کی سیاست کے فیصلے سیاسی میدان میں ہونے چاہئیں۔
صرف فواد چوہدری ہی نہیں سابق وفاقی وزیر اور پی ٹی آئی کی رہنما شیریں مزاری سمیت دیگر رہنما بھی ایسے ہی بیانات دیتے آرہے ہیں۔
کیا عمران خان واپس اسمبلی میں آئیں گے؟
تجزیہ کار اور اینکر پرسن سمیع ابراہیم کہتے ہیں کہ عمران خان کسی صورت اسمبلی میں نہیں جائیں گے۔ عمران خان پنجاب میں اپنی مستحکم حکومت کے خواہاں ہوں گے۔ اگر پنجاب میں حکومت آ گئی تو خیبر پختونخوا اور پنجاب حکومت کی مدد سے انہیں اسلام آباد احتجاج کے لیے آنے سے روکنے والا کوئی نہیں ہوگا۔
سمیع ابراہیم نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کی حکمتِ عملی کیوں کہ دباؤ بڑھانے کی ہےلہٰذا ایسی صورتِ حال عمران خان کو سوٹ کرے گی کہ وہ صرف اسلام آباد میں احتجاج کریں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت کی کوشش ہو گی کہ عمران خان پارلیمنٹ میں واپس آئیں اور یہ نظام چلتا رہے البتہ عمران خان کا قومی اسمبلی میں واپس آنا اس حکومت کو، جسے وہ امپورٹڈ یا سازش کے سے بنی حکومت کہتے ہیں، تسلیم کرنے کے مترادف ہوگا۔
انہوں نے خیال ظاہر کیا کہ عمران خان کسی صورت قومی اسمبلی میں واپس نہیں جائیں گے۔
سمیع ابراہیم کے بقول عمران خان نئے انتخابات کے مقصد کے لیے اسمبلی میں جائے بغیر اور سڑکوں پر رہ کر مطلوبہ مقاصد حاصل کرسکتے ہیں۔موجودہ اسمبلی میں ابھی بھی اتحادی موجودہ حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اگر عمران خان اسی اسمبلی میں حکومت حاصل کرنا چاہیں تو ان کے لیے مشکل ہوگا کہ انہی اتحادیوں سے بات کریں جو ماضی میں انہیں ہٹانے میں مددگار بن چکے ہیں۔
صحافی اور تجزیہ کار سلیم بخاری کہتے ہیں کہ قومی اسمبلی میں عمران خان واپس نہیں جانا چاہتے کیوں کہ اگر وہ شہباز شریف کو ہٹانا چاہیں، تو ان کے لیے بہت آسان ہے کہ تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعے حکومت ختم کر دی جائے اور عمران خان دوبارہ وزیرِ اعظم بن سکتے ہیں لیکن وہ ایسا نہیں چاہتے کیوں کہ موجودہ مشکل معاشی صورتِ حال میں وہ کچھ نہیں کرسکتے۔
کیا پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلی توڑ کر نئے عام انتخابات ہو سکتے ہیں؟
سینئر صحافی حامد میر کہتے ہیں کہ عمران خان واضح مؤقف رکھتے ہیں کہ وہ نئے عام انتخابات چاہتے ہیں البتہ ان کی پالیسیوں میں تضادات ہیں۔ اگر انہیں نئے انتخابات چاہیئں تو وہ پنجاب کا الیکشن اتنا دھوم دھڑکے سے نہ لڑتے اور کے پی اسمبلی توڑ دیتے۔ اب وہ پنجاب میں بھی حکومت کرنا چاہ رہے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں حامد میر کا کہنا تھا کہ اسلام آباد کے اطراف میں اسمبلیوں میں عمران خان کی حکومت ہے۔ عمران خان کے لیے آسان ہے کہ حکومتیں تحلیل کرکے وفاق کے لیے مشکلات کا باعث بنتے لیکن وہ ایسا نہیں کر رہے۔
سمیع ابراہیم کہتے ہیں کہ صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنے سے آئینی طور پر قومی اسمبلی پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ سندھ میں پیپلز پارٹی اسمبلی نہیں توڑے گی۔ایسے میں پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیوں کی تحلیل سے پی ٹی آئی کو نقصان ہوگا۔ ان کا فائدہ اسی میں ہے کہ وہ دونوں صوبوں میں بیٹھ کر وفاق پر دباؤ بڑھائیں، جس کے بعد وہ جلد عام انتخابات کا اعلان کرے۔
سمیع ابراہیم نے کہا کہ عمران خان کو اسمبلیاں توڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کا مقصد موجودہ اسمبلی پر دباؤ ڈالنا اور نئے صاف و شفاف انتخابات کی راہ ہموار کرنا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پرویز الہٰی کہہ چکے ہیں کہ پنجاب کا وزیرِ اعلیٰ بننے پر عمران خان کے کہنے پر ایک منٹ میں اسمبلیاں توڑ دیں گے جب کہ وہ مسلم لیگ (ن) کے لیے خطرناک بھی ثابت ہوسکتے ہیں۔ لہٰذا اسمبلیاں توڑنے کے بجائے پرویز الہٰی اور عمران خان کا تعاون وفاقی حکومت کی مشکلات بڑھا سکتا ہے۔
تجزیہ کار سلیم بخاری کہتے ہیں کہ تحریکِ انصاف کی حکمتِ عملی تو یہ ہے کہ جلد سے جلد نئے عام انتخابات ہوں۔ اس مقصد کے لیے وہ پنجاب میں حکومت حاصل کرنا چاہ رہی ہے۔ اس کے ذریعے وہ حکومت کو صرف اسلام آباد تک محدود کرنا چاہتی ہے۔
کیا اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ آئندہ انتخابات تک چلے گا؟
بعض مبصرین کے مطابق پنجاب کے 20 حلقوں میں ضمنی انتخابات میں بیشتر پر تحریکِ انصاف کو اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے کی وجہ سے کامیابی حاصل ہوئی۔ اس حوالے سے صحافی حامد میر کہتے ہیں کہ پاکستان میں سیاست ایک عرصہ ہوا تبدیل ہو چکی ہے۔
حامد میر کاکہنا تھا کہ پاکستان کی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کوئی بھی سخت بیانیہ نہیں رکھ پاتا۔ نواز شریف جی ٹی روڈ پر راولپنڈی سے نکلے اور مرید کے تک پہنچ کر ان کا بیانیہ نرم ہوچکا تھا۔ پیپلز پارٹی ہمیشہ خاموش رہتی تھی۔ عمران خان واحد ہیں جنہوں جو کھڑے ہوئے۔
انہوں نے مزید کہا کہ عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے کے ذریعے کامیابی حاصل کی اور اس بات کو ثابت کیا کہ اسٹیبلشمنٹ کو خوش رکھے بغیر بھی کامیابی مل سکتی ہے۔
عمران خان اور تحریکِ انصاف کے حوالے سے حامد میر نے خیال ظاہر کیا کہ وہ اسٹیبلشمنٹ اور امریکہ مخالف جذبات کے ساتھ اسی بیانیے کو مزید لے کر چلیں گے ۔
تجزیہ کار سلیم بخاری کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کو اسٹیبلشمنٹ اور امریکہ مخالف بیانیے پر ووٹ ملے البتہ وہ اس بیانیے کو آئندہ انتخابات تک برقرار رکھیں گے ،یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کیوں کہ ان سے انتخابات میں فائدہ تو ہو سکتا ہے لیکن وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ان دونوں بیانیوں کو حقیقت میں جاری رکھنے پر انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ اور اینٹی امریکہ نعروں نے انہیں پنجاب کے ضمنی انتخابات میں کامیابی میں مدد کی ہے البتہ پاکستان کی تاریخ میں فوج کے خلاف نعرے لگا کر حکومت چلتی ہوئی نہیں دیکھی۔ لہٰذا یہ کہنا مشکل ہے کہ اسی نعرے کو مستقل بنیاد بنا کر چلا جائے گا۔
اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیے کے حوالے سے سمیع ابراہیم کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے عمران خان کے بیانیے کا تسلسل نظر آ رہا ہے۔ عمران خان فوج کے خلاف نہیں لیکن بعض شخصیات کے خلاف ہیں اور وہ ان کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
سمیع ابراہیم کا بقول اب تو سعد رفیق اور دیگر رہنماؤں کی طرف سے جو بیانات آ رہے ہیں، ان سے محسوس ہو رہا ہے کہ پی ڈی ایم بھی اسی بیانیے کی طرف جا رہی ہے۔ بار بار فوج کو عمران خان کا لاڈلہ ہونے کا کہنا اس بات کی مثال ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت ملک میں سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے ملک کی صورتِ حال بہت خراب ہے۔ حکومت کچھ بھی کرلے لیکن صورتِ حال میں تبدیلی نظر نہیں آ رہی۔ ایسے میں سب جماعتوں کے لیے نئے الیکشن کی طرف جانا ہی بنتا ہے۔
سمیع ابراہیم کے مطابق اس وقت اتحادی جماعتوں کو اندازہ ہے کہ وہ انتخابات ہار جائیں گی لیکن وہ انتخابات کرانے سے قبل نئے آرمی چیف کی اہم تعیناتی کرنے تک رہنا چاہتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ وہ اس نئی تعیناتی سے کوئی فائدہ اٹھا سکیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پنجاب کے حالیہ ضمنی انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ مکمل طور پر نیوٹرل نظر آئی اور ایسے میں حکومت کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔