’نیو یارک ٹائمز‘ اپنے اداریے میں لکھتا ہے کہ افغانستان کی جنگ کے کامیاب اختتام کا انحصار اِس بات پر ہے کہ طالبان کو فوجی طور پر کمزور کیا جائے اور افغانستان کی حکومت کو اتنا مضبوط کردیا جائے کہ امریکی فوج کے انخلا کے ساتھ ہی یہ ختم نہ ہوجائے۔
اخبار لکھتا ہے کہ اگر امریکی صدر 2014ء تک اپنی فوجیں واپس بلانا چاہتے ہیں تو اُنھیں افغانستا ن میں فعال حکومت کے قیام اور بنیادی ضروریات کی فراہمی اور سکیورٹی کو یقینی بنانا ہوگا۔
حکومت سازی کو بہتر بنانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ صدر کرزئی 2014ء میں آئین کے مطابق اپنے عہدے سے دستبردار ہوجائیں۔ گو کہ اُنھوں نے کہہ رکھا ہے کہ وہ ایسا ہی کریں گے، لیکن امریکہ کو اِس بات کو یقینی بنانا پڑے گا کہ وہ اپنے وعدے پر قائم ہیں اور امریکہ کو اُن پر اِس بات کا بھی دباؤ ڈالنا ہوگا کہ وہ سیاسی اصلاحات متعارف کرائیں تاکہ 2014ء کے انتخابات میں دھاندلی کے امکانات کم ہوجائیں۔
اِس کے علاوہ امریکہ نے کھُلے عام اِس بات کو تسلیم کرنا شروع کر دیا ہے کہ طالبان کے ساتھ سیاسی مفاہمت پر بات چیت جاری ہے۔
اخبار لکھتا ہے کہ واشنگٹن کو چاہیئے کہ وہ اِس سلسلے میں ایک عالمی صلح کار مقرر کرے جو افغانستان کے مزید باغی گروپوں کو مذاکرات کی میز پر لاسکے۔ اور آخر میں اخبار لکھتا ہے کہ افغانستان میں اُس وقت تک استحکام نہیں آسکتا جب تک پاکستان طالبان اور دوسرے شدت پسند گروپوں کی مدد کرنا چھوڑ نہ دے۔
اخبار لکھتا ہے کہ امریکہ کو پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات بحال کرنے ہوں گے اور مکمل امداد تو بند نہیں کرنی چاہیئے لیکن پاکستان پر دباؤ ڈالنے کے لیے فوجی امداد میں ضرور کمی کرنی چاہیئے۔
اخبار’ واشنگٹن پوسٹ‘ کے ایک کالم میں لکھا گیا ہے کہ 11ستمبر کے حملوں کی برسی کو کچھ ہی دِن باقی رہ گئے ہیں جس دِن بے پناہ لوگ ہلاک ہوئے اور دکھ اورخوف نے پورے شہر کو گھیر لیا، جہاں اگلے کچھ دِن لوگوں نے صرف جنازے اُٹھتے دیکھے۔ لیکن، دس سال گزرنے کے بعد بھی جنگ ختم نہیں ہوئی۔
کالم نگار کہتے ہیں کہ ہم ابھی بھی افغانستان میں بلا مقصد اور عراق میں بلا منطق جنگ لڑ رہے ہیں۔
ہم بچوں کی مانند تھے جِن کو اُس وقت کے صدر اور نائب صدر نے یقین دلایا کہ جنگ ضروری ہے اور جلد ختم ہوجائے گی۔
وہ صدام حسین نہیں تھا جس نے ہم پر حملہ کیا اور نہ ہی اُس کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والا اسلحہ تھا۔ لیکن، پھر بھی ہم جنگ کے لیے نکل کھڑے ہوئے اور اُس کے بعد اِس جنگ کی طرف بھیجنے والوں کو دوبارہ منتخب بھی کر لیا۔
کالم نگار لکھتے ہیں کہ 11ستمبر کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی عمارت کی دھول میرے جوتوں پر بھی گری تھی اور میں نے اپنے اندر ایک نفرت محسوس کی تھی۔میں جنگ کے لیے تیار تھا۔ القاعدہ اور طالبان کے ساتھ تو یقینی طور پر ، لیکن صدام حسین کے ساتھ بھی۔ میں اُس وقت غلط تھا اور اِس کے لیے اپنے آپ کو الزام دیتا ہوں۔لیکن، میں ہم سب کو اس بات کا زیادہ الزام دیتا ہوں کہ اس جنگ میں دھکیلنے والوں کو ہم ایک اور مدت کے لیے منتخب کرلیا۔
11ستمبر وہ دِن ہے جو کبھی ختم نہیں ہوگا۔
اخبار ’یو ایس اے ٹوڈے‘ لکھتا ہے کہ پچھلے نو سالوں سے 11ستمبر کی یاد منانے کے لیے لوگ نیو یارک کے گراؤنڈ زیرو میں اِکٹھے ہوتے ہیں، جہاں اِن حملوں میں ہلاک ہونے والے 3000لوگوں کے نام پڑھے جاتے ہیں اور اِس دوران چار مرتبہ خاموشی اختیار کی جاتی ہے۔اُن لمحوں کی یاد میں جب دو جہاز عمارتوں سے ٹکرائے اور جب دونوں عمارتیں گریں۔
اِس دفعہ دسویں برسی پر اُن لوگوں کے نام بھی پڑھے جائیں گے جو پنسلوانیا کے جہاز اور پنٹگان پر حملے میں ہلاک ہوئے اور صدر اوباما اور سابق صدر بش بھی اِن تقریبات میں شرکت کریں گے۔
لیکن اب ایک اور تنازعہ کھڑا ہوگیا ہے اور وہ یہ کہ اِس تقریب کے دوران باقاعدہ دعا کا کوئی انتظام نہیں کیا جار ہا۔
گو کہ لوگ خاموشی سے اپنے دلوں میں دعا کریں گے لیکن کچھ قدامت پسند گروپوں کا کہنا ہے کہ دعا کے لیے مذہبی راہنماؤں کا موجود ہونا ضروری ہے، جب کہ نیویارک کے میئر مائیک بلوم برگ اس کی اجازت نہیں دے رہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ پروگرام اِس حٕملے میں ہلاک ہونے والوں کے اہلِ خانہ کے ساتھ مل کر ترتیب دیا گیا ہے، جِن کو اس بات پر اعتراض نہیں ہے کہ مذہبی راہنما موجود ہوں یا نہ ہوں۔
دوسرا شاید پروگرام ترتیب دینے والوں کو یہ بھی ڈر ہو کہ اگر مذہبی راہنما ؤں کو بلایا گیا تو پھر مسلمان اماموں کو بھی بلانا پڑے گا اور اِس پر شاید پھر سے ایک تنازعہ کھڑا ہوجائے۔
لیکن، اخبار لکھتا ہے کہ اِس کا ڈر نہیں ہونا چاہیئے کیونکہ 11ستمبر کے حملوں کے کچھ ہی دِنوں بعد مسلمان اماموں نے ینکی اسٹیڈیم میں ہونے والی تقریبات میں شرکت کی تھی جس پر کسی نے کوئی اعتراض نہیں کیا تھا۔ بلکہ یہ بات باور ہوئی تھی کہ’ اسلام نہیں القاعدہ دشمن ہے‘۔
تاہم، اخبار لکھتا ہے کہ پھر بھی اگر لوگوں کے خاندان والے یہ چاہتے ہیں کہ اس دِن مرنے والوں کو یاد کیا جائے تو ایسا ہی ہونا چاہیئے، کیونکہ ویسے ہی مذہبی تقاریر کئی دوسری جگہ منعقد ہوں گی۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: