چار جولائی کو امریکہ میں ’یومِ آزادی‘ ہے۔ اِس مناسبت سے، اخبار ’بوسٹن گلوب‘ میں جیف جیکبی کا ایک مضمون چھپا ہے۔
وہ لکھتے ہیں ’اعلانِ آزادی‘ کے ساتھ ہی دنیا کے نقشے پر ایک نئی مملکت وجود میں آئی۔ لیکن، وہ کہتے ہیں کہ زمانہٴ قدیم سے ایسا ہوتا آیا ہے۔ انقلاب آتے ہیں۔ قدیم سلطنتوں سے ٹوٹ کر نئے ملک وجود میں آتے ہیں۔ مگر، امریکہ کے تیسویں صدر کیلون کولرِج نے اعلانِ آزادی کی 150ویں سالگرہ کے موقعے پر کہا تھاکہ چار جولائی 1776ء کے تاریخ کا عظیم دِن قرار پانے کی وجہ کچھ اور ہے۔ اور وہ یہ کہ یہ پہلا ملک ہے جو نسل اور سرزمین کی بنیاد پر نہیں بلکہ ایک واضح فلسفے کی بنیاد پر وجود میں آیا اور وہ فلسفہ تھا کہ تمام انسان برابر پیدا کیے گئے ہیں۔ اور، یہی فلسفہ سیاسی نظریات کی بنیاد بنا۔
چناچہ، جیکبی لکھتے ہیں کہ 1776ء میں جب کانٹی ننٹل کانگریس نے متفقہ طور پر یہ اعلان کردیا کہ سب انسان برابر ہیں جنھیں اُن کے خالق نے خاص حقوق دیے ہیں اور اُنھیں زندگی، آزادی اور خوشی کے حصول کا حق ہے، تو یہی اعلان، یہی الفاظ نسلوں سے امریکی عوام کے یقین کا حصہ بن گئے۔
وہ توجہ دلاتے ہیں کہ سیاسی طاقت بھی کسی کمیونٹی کے رہنے والوں کے باہم اجتماع اور باہمی اتفاقِ رائے سے پھوٹتی ہے۔ اور، یہ نکتہ اعلانِ آزادی میں واضح کردیا گیا ہے۔ چناچہ، چار جولائی یومِ آزادی سے زیادہ اُن سیاسی نظریات کے جشن کا دِن ہے جو اِس یقین اور فلسفے کے ذریعے وجود میں آئے کہ حکومتیں انسانوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے وجود میں آتی ہیں اور اُنہی کی رضایت اور موافقت سے مظبوط ہوتی ہیں جِن پر وہ حکومت کرتے ہیں۔
اخبار ’ہوسٹن کرانیکل‘ نے افغانستان کے دورے پر گئے تین امریکی سینیٹرز کے حوالے سے لکھا ہے کہ جان مک کین، جو لبرمین اور لِنڈسی گراہم نے افغانستان میں امریکی فورسز کی پیش رفت پر کچھ زیادہ اطمینان کا اظہار نہیں کیا، بلکہ جان مک کین نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ فوجوں کی واپسی کے لیے اوباما کا منصوبہ ایک غیر ضروری خطرہ مول لینے کے مترادف ہے۔
اخبار لکھتا ہے کہ لیفٹیننٹ جنرل جان ایلن وہ میرین جنرل ہیں جو واپسی کے لیے صدر کے احکامات پر عمل درآمد کروائیں گے۔ وہ نظام الاوقات کو قدرے تیزی کا حامل تو قرار دیتے ہیں، مگر ساتھ ہی، اِس جانب بھی توجہ دلاتے ہیں کہ جنگ کا پانسہ لپیٹنے کے لیے ایک وسیع پیش قدمی کی ضرورت ہوگی، جِس میں، اخبار کے مطابق، اتحادیوں کی جانب سے امداد میں مزید اضافے اور افغان بدعنوانی میں مزید کمی کی ضرورت ہوگی۔
اخبار لکھتا ہے کہ سینیٹرز کے خدشات اِس بارے میں بھی کچھ کم نہیں کہ طالبان قیادت کے ساتھ امن کی بات چیت کے لیےمغربی کوششیں ہوسکتا ہے کہ باغیوں کی جانب سے افغانوں کے ساتھ دھوکے پر منتج ہوں۔ چناچہ، بہتر حکمتِ عملی یہی ہے کہ طالبان کو یقین دلایا جائے کہ وہ میدانِ جنگ میں اپنی طاقت کے بل بوتے پر اپنے مقاصد حاصل نہیں کرسکتے۔ چناچہ، مذاکرات کی میز پر آنے کے سوا چارہ نہیں۔
اخبار ’لاس ویگاس سن‘ نے واشنگٹن ڈی سی کی سرکٹ کورٹ کے فیصلے کو سراہتے ہوئے اُسے اپنے ادارئے کا موضوع بنایا ہے۔
اخبار لکھتا ہے جمعے کے روز تین ججوں کے ایک پینل نے متفقہ طور پر دو ریاستوں کا دعویٰ مسترد کردیا۔ اخبار لکھتا ہے ریاست جنوبی کیرولائینا اور واشنگٹن کی خواہش تھی کہ اعلیٰ سطح کا ایٹمی فضلہ لاس ویگس سے 90میل شمال مغرب میں یوکا ماؤنٹین میں دفن کیا جائے اور اُن کے دعوے کو نیوکلیئر انرجی انسٹی ٹیوٹ کی حمایت بھی حاصل تھی۔
اُنھوں نے انرجی ڈپارٹمنٹ کے اُس فیصلے کے خلاف دعویٰ کیا تھا جِس کے تحت اُس نے نیواڈا کے ریگستان میں فضلہ دفن کرنے کی تنصیب کی تعمیر سے متعلق اپنا لائسنس واپس لے لیا ہے۔
اخبار لکھتا ہے سینیٹ میں اکثریت کے لیڈر نیواڈا کے ہیری ریڈ نے بھی کہا ہے کہ یوکا ماؤنٹین میں ایٹمی فضلے کا دفن کیا جانا اِس مسئلے کا کوئی محفوظ حل نہیں۔
اخبار لکھتا ہے کہ صدر اوباما نے بھی ریڈ کی تائید کرتے ہوئے یہی نتیجہ اخذ کیا ہے کہ یوکا ماؤنٹین بہتر متبادل نہیں ہے کیونکہ ایک تو لاس ویگس کی گنجان آبادی سے بڑے پیمانے پر ایٹمی فضلہ گزارنا اور پھر یوکا ماؤنٹین میں زلزلوں کا خطرہ۔
اخبار لکھتا ہے کہ اب توقع کی جانی چاہیئے کہ نیوکلیئر ریگولیٹری کمیشن، انرجی ڈپارٹمنٹ کی لائسنس واپس لینے کی درخواست پر غور کرے گا، تاکہ ملک میں نیوکلیئر ویسٹ کو ٹھکانے لگانے کے لیے کوئی زیادہ معقول متبادل تلاش کیا جاسکے۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: