امریکی اخبار 'یو ایس اے ٹوڈے' لکھتا ہے کہ کوئی احمق ہی اِس بات پر یقین کرے گاکہ ایران بغداد مذاکرات میں پوری سنجیدگی کے ساتھ شریک تھا۔
اخبار کے بقول، ایران اس وقت مغربی طاقتوں کے ساتھ محض اس لیے مذاکرات کررہا ہے کیوں کہ وہ خود پر عائد کڑی اقتصادی پابندیوں کے دباؤ سے نکلنا چاہتا ہے۔
امریکہ اور یورپی یونین کی جانب سےعائد کردہ نئی پابندیاں ایران کی معیشت کو بری طرح نقصان پہنچارہی ہیں۔ ایرانی تیل کی یورپ برآمد پر عائد پابندی بھی یکم جولائی کو موثر ہوجائے گی جس کے بعد ایران کی یہ مالی مشکلات مزید بڑھ جائیں گی۔
'یو ایس اے ٹوڈے' لکھتا ہےکہ عالمی اقتصادی پابندیوں کےباعث عام ایرانیوں کی زندگیاں اجیرن ہوتی جارہی ہیں اور وہ موجودہ قیادت سے نالاں ہیں۔ اس صورتِ حال نے ایرانی رہنماؤں کو پریشان کردیا ہے اور وہ اسی پریشانی کے عالم میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ مذاکرات کی میز پر لوٹ آئے ہیں۔
اخبار لکھتا ہے کہ ایران مغربی طاقتوں کے ساتھ تعاون کے عوض چاہتا ہے کہ اس پر عائد بعض پابندیاں نرم کردی جائیں یا کم از کم نئی پابندیاں عائد نہ کیے جانے کی یقین دہانی ہی کرائی جائے۔
لیکن، امریکہ اور اتحادی ایران کی مجبوریوں اور ارادوں کو بھانپتے ہوئے محتاط ردِ عمل ظاہر کر رہے ہیں۔'یو ایس اے ٹوڈے' لکھتا ہے کہ اتحادیوں کو چاہیئے کہ وہ ایران کو سب کچھ ایک ہی بار پلیٹ میں رکھ کر دینے کے بجائے مرحلہ وار رعایتیں دیں۔
اخبار نے لکھا ہےکہ ایران کی جانب سےاپنی افزودہ یورینیم مغرب کے حوالے کرنے، خفیہ جوہری تنصیبات بند کرنے اور عالمی معائنہ کاروں کو مشکوک تنصیبات کے غیر مشروط معائنے کی اجازت دینے تک اس پر سے پابندیاں نہ اٹھائی جائیں۔
'یو ایس اے ٹوڈے' کا موقف ہے کہ اگر ایران جوہری طاقت بن بھی جائے تو اسے قابو میں رکھنا ممکن ہوسکتا ہے۔ لیکن اخبار کے بقول، ایران کو جوہری طاقت بننے سے ہر ممکن طریقے سے روکنا ہی بہتر ہوگا کیوں کہ یہ ایک ایسا جوا ہے جس میں امریکہ شکست کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
اخبار 'لاس اینجلس ٹائمز' لکھتا ہے کہ عالمی دہشت گرد تنظیم 'القاعدہ' کے رہنماؤں کو چن چن کر نشانہ بنانے کی امریکی حکمتِ عملی کامیاب ثابت ہوئی ہے۔
اخبار لکھتا ہے کہ اس حکمتِ عملی کے ناقدین عموماً دو اعتراضات اٹھاتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ زندہ کے بجائے مردہ القاعدہ رہنما زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔ امریکہ کے ہاتھوں ہلاکت کی صورت میں القاعدہ رہنمائوں کو شہید کے رتبے پر فائز کردیا جاتا ہے اور یوں وہ دیو مالائی حیثیت اختیار کرکے لوگوں کے لیے قابلِ تقلید مثال بن جاتے ہیں۔
دوسرا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ'القاعدہ' جیسی تنظیم میں رہنماؤں کی حیثیت مرکزی نہیں ہوتی اور کسی بھی رہنما کی ہلاکت کی صورت میں اس کا کوئی اہل اور ہوشیار نائب اس کی جگہ سنبھال لیتا ہے۔
لیکن، 'لاس اینجلس ٹائمز' لکھتا ہے کہ یہ دونوں اعتراضات درست نہیں۔'القاعدہ' کے خلاف امریکہ کو کامیابیاں اس لیے ملی ہیں کیوں کہ اس نے تنظیم کے اسامہ بن لادن اور انور الاولکی جیسے ان رہنمائوں کونشانہ بنایا جن کا نعم البدل 'القاعدہ' کے پاس سرے سے دستیاب ہی نہیں تھا۔
اخبار لکھتا ہے کہ اس حکمتِ عملی کے نتیجے میں 'القاعدہ' کی حیران کن حملے کرنے کی صلاحیت متاثر ہوئی ہے کیوں کہ اس کے ذہین اور منصوبہ ساز لوگوں کو ہلاک یا گرفتار کرلیا گیا ہے۔
'لاس اینجلس ٹائمز'کہتا ہے کہ القاعدہ رہنماؤں کو نشانہ بنا کر امریکہ نہ صرف اپنے خلاف برسرِ پیکار دشمنوں کو راہ سے ہٹا رہا ہے بلکہ اس کے نتیجے میں القاعدہ ان رہنماؤں کےعلم اور تجربے سےبھی محروم ہورہی ہے۔ اخبار لکھتاہے کہ 'القاعدہ' کی یہ محرومی اسے کمزور کر رہی ہے اورامریکہ اس حکمتِ عملی کے ذریعے تنظیم کو بتدریج تباہ کر رہا ہے۔