اخبار ’لاس انجلیس ٹائمز‘ نے امریکہ کے ڈرون طیاروں اور دہشت گردی کے خلاف اُن کے استعمال کو اپنے اداریے کا موضوع بنایا ہے۔اخبار لکھتا ہے، امریکہ ہدف بنا کر ہلاک کرنے کے لیےڈرون طیاروں کے استعمال میں توسیع کررہا ہے۔ مگر اُس کا یہ عمل بہت سے اخلاقی اور قانونی سوالات کو جنم دے رہا ہے۔
اخبار اپنے اداریے کے شروع میں لکھتا ہے کہ امریکہ قرنِ افریقہ اور جزیرہ نما عرب میں ڈرون طیاروں کےاپنے اڈے قائم کر رہا ہے، تاکہ یمن اور صومالیہ میں القاعدہ کے ساتھیوں اور دیگر دہشت گردوں کو نشانہ بنایا جاسکے یا اُن کے بارے میں معلومات جمع کی جاسکیں۔
اخبار لکھتا ہے، افغانستان میں تو ہم حالتِ جنگ میں ہیں، جو پھیل کر پاکستان کو چھو رہی ہے۔ مگر کیا صومالیہ اور یمن میں بھی ہمیں لوگوں کو ہلاک کرنے کا اختیار ہے؟ اور کیا ہم ایسا لندن یا لاس انجلیس میں بھی کرسکتے ہیں؟ کیا ہمارے لیے یہ قابلِ قبول ہوگا کہ روس، نیویارک کی سڑکوں پر چیچنیا کے کسی دہشت گرد کو گولیاں مار کر ہلاک کردے؟
اخبار لکھتا ہے ، مان لیجئیےکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ماورائے سرحد ہے۔ مگر، اِس کی بھی کوئی حد ہونی چاہیئے؟
اخبار لکھتا ہے، ہمیں تشویش اس بارے میں بھی ہونی چاہیئے کہ آخر فوج اور سی آئی اے اہداف کی فہرست کا تعین کیسے کرتے ہیں؟ امریکہ کو ہر اُس شخص پر میزائل نہیں داغنے چاہئیں جو القاعدہ یا اُس جیسے کسی گروپ سے منسلک ہو۔
اپنے اداریے کے آخر میں اخبار’ لاس انجلیس ٹائمز‘ کا اصرار ہے کہ ہدف بنا کر ہلاک کرنے کے اس عمل کا انتظامیہ کے اعلیٰ ترین سطح پر جائزہ لیا جانا چاہیئے، کیونکہ ایسے میں جب امریکہ افغانستان سے اپنی فوجیں واپس بلا رہا ہے، ڈرون طیاروں کے ذریعے ہلاکتوں پر سنگین اخلاقی اور قانونی سوالات پیدا ہورہے ہیں۔
اخبار’ واشنگٹن پوسٹ‘ کے ادارتی صفحے پر ڈیوڈ اگنیشیس کا ایک مضمون چھپا ہے جس میں اُنھوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں صدر اوباما کے خطاب کو موجوع بنایا ہے۔
مصنف کا خیال ہے کہ اوباما اپنے خطاب میں فلسطینی ریاست کے قیام کے اپنے اُس مؤقف سے پیچھے ہٹتے نظر آئے جو اُنھوں نے اپنا منصب سنبھالتے ہوئےاختیار کیا تھا۔ مگر یہ خارجہ پالیسی کی اُس حقیقت شناسی کا اظہار تھا کہ امریکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اسرائیل کو کبھی تنہا نہیں چھوڑے گا۔
اگنیشئس کا خیال ہے کہ خارجہ پالیسی کے میدان میں صدر اوباما اُسی طرح محتاط ہیں جیسے معمولی سبقت رکھنے والی فٹ بال ٹیم کا وہ کھلاڑی جو ہر صورت خود کو لڑکھڑانے سے بچاتا ہے، تاکہ ٹیم کی ناکامی کی ذمہ داری اُس پر نہ آجائے۔
تاہم، مصنف کا خیال ہے کہ اوباما اپنی کوشش میں خاصے کامیاب ہیں۔ بلکہ، خوب کھیل رہے ہیں۔ بے یقینی کے اِن حالات میں دانشمندی سے کام لے رہے ہیں۔ مگر بظاہر یہ کوئی کامیاب حکمتِ عملی نہیں ہے۔
اخبار کہتا ہے ذرا سوچیئے: پاکستان میں بھارت میں، ترکی یا شام میں یا اُس فلسطینی ریاست میں اُن کے پاس کیا موقعہ ہے جس کا اعلان آخرِ کار ہو ہی جائے گا۔ شاعروں کی یہ تمنا تو رہی ہے کہ بے درو دیوار سا ایک گھر بنانا چاہیئے یا دامن میں کوہ کے ایک چھوٹا سا جھونپڑا ہو۔ مگر، کیا کوئی ایسا شہر بھی بسایا جاسکتا ہے جس میں انسان نہ بستے ہوں؟
اخبار ’نیو یارک ٹائمز‘ میں نیو یارک یونی ورسٹی کے اسکالر گریگ گلینسی نے ایسے ہی ایک شہر کا احوال بیان کیا ہے جو امریکہ کی ایک ٹیکنالوجی کمپنی نیو میکسیکو کے ریگستان میں 20مربع میل میں آباد کر رہی ہے۔ مگر اس کی تمام آبادی روبوٹس پر مشتمل ہوگی۔
سنہ 2014تک وہاں اتنی سڑکیں، عمارتیں ااور پانی، بجلی کی لائنیں بچھا دی جائیں گی جو 35000لوگوں کے لیے کافی ہوں گی۔ صرف چند سو انسان وہاں موجود ہوں گے جو یا تو انجنیئرز ہیں یا پروگرامرز جو زیرِ زمین رہ کر سمارٹ پاور گرڈ ، سائبر سکیورٹی اور انٹیلی جنس نگرانی کے نظاموں پر مشتمل اس بڑی سی لیبارٹری کے کنٹرول روم سنبھالیں گے۔
اِس منصوبے کو Pegasus Projectکا نام دیا گیا ہے جسے کمپنیاں یونیورسٹیاں اور حکومتی ادارے فائدہ اُٹھائیں گے، مگر ساتھ ہی مصنف کا خیال ہے کہ نیویارک جیسے شہروں میں انتظامی پیچیدگیوں نے اِس منصوبے کو جنم دیا ہے، چناچہ اب نیویارک والوں کو بھی جان لینا چاہیئے کہ ، بقول شاعر:
حسن بے پرواہ کو اپنی بے حجابی کے لیے،
ہوں اگر شہروں سے بَن پیارے، تو شہر اچھے کہ بَن؟
آڈیو رپورٹ سنیئے: