اخبار’ یوایس اے ٹوڈے‘اپنے اداریے میں لکھتا ہے کہ مصری عوام ایک دفعہ پھر ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں تحریر چوک میں جمع ہوئے ہیں۔نو ماہ پہلے حسنی مبارک کا تختہ الٹنے کے بعد اُن سے جمہوریت کے نفاذ کا وعدہ کیا گیا تھا۔ اِس کے برعکس، اُنھوں نے ملٹری کونسل کو حسنی مبارک کی جگہ لیتے دیکھا جو اُن سے جمہوریت کا حق چھین رہی ہے۔
اخبار لکھتا ہے کہ فوجی جرنیلوں نے انتقالِ اقتدار میں تاخیر کا ہر حربہ آزمایا ہے، بلکہ نئے آئین میں فوج کو سویلین کنٹرول سے باہر رکھنے کی کوشش کی ہے۔
آخری خبریں آنے تک، مظاہروں میں 33افراد ہلاک ہوچکے ہیں جب کہ کم از کم 1700زخمی ہوئے ہیں۔ اِس کی وجہ سے
لاکھوں کی تعداد میں مظاہرین سڑکوں کا رخ کر رہے ہیں اور عوام کی نظروں میں فوج کی ساکھ متاثر ہوئی ہے۔
اخبار لکھتا ہے کہ اِس تحریک کا آغاز کرنے والے سیکولر لبرل طبقے ایک مؤثر سیاسی نظام قائم کرنے میں ناکام ہوگئے ہیں، جس سے زیادہ منظم اخوان المسلمین اور زیادہ شدت پسند اسلامی خیالات رکھنے والوں کے لیے آئندہ پیر کو ہونے والے انتخابات میں اپنی جگہ بنانے کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔
اخبار لکھتا ہے کہ بہر حال امریکہ کو جمہوریت کے لیے حمایت کی پالیسی اپنانی چاہیئے۔ خطے کے غیر مستحکم مسائل کے مدِ نظر، اوباما انتظامیہ نے پسِ پردہ رہ کر کام کرنے کو ترجیح دی ہے۔ لیکن، تحریر چوک میں عوام کا اشتعال دیکھتے ہوئے اِس طرزِ عمل میں تبدیلی آئے گی۔ اور اخبار کا کہنا ہے کہ امریکہ کو مظاہرین کے مقصد کے ساتھ وابستگی کے لیے اپنے دباؤ میں اضافہ کرنا پڑے گا۔
اخبار’ واشنگٹن پوسٹ‘ اپنے اداریے میں لکھتا ہے کہ سیاست دان ہمیشہ ہی اچھی پالیسی اور اچھی سیاست کے باہمی میل کی تلاش میں رہتے ہیں اور صدر اوباما کا خیال ہے کہ اُنھوں نے اِس جادوئی اشتراک کو حاصل کرلیا ہے اور اِس کا اظہار اُن کے’ سوشل ویلفیئر پے رول ٹیکس‘ میں ملازمین کے حصے میں کٹوتیوں کو توسیع دینے کے ارادے سے ملتا ہے۔
کانگریس نے گذشتہ سال ملازمین کی تنخواہوں سے اِس مد میں کمی کرکے 6.2فی صد کردیا تھا، جسے صدر اوباما مزید کم کرکے 4.2فی صد کرنا چاہتے ہیں۔
تفصیل کےلیےآڈیو رپورٹ سنیئے: