اسلام آباد میں پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے امریکی سفارت خانے سے سرکاری طور پر احتجاج کیا ہے۔ لیکن، ’نیو یارک ٹائمز‘ کے بقول، تین امریکی عہدہ داروں نے، جو ڈرون طیاروں کے پروگرام سے واقف ہیں، کہا ہے کہ قبائلی علاقے میں یہ حملے امریکہ نے نہیں کیے
پاکستان کے قبائلی علاقوں میں حال ہی میں جو ڈرون حملے ہوئے ہیں کیا اُن کی ذمہ داری امریکہ پر آتی ہے یا کسی اور پر؟ اِس پر ’نیو یارک ٹائمز‘ میں ایک تفصیلی تجزیہ چھپا ہے جس کے مطابق فروری کے اوائیل میں جب قبائلی علاقوں میں دو ڈرون حملوں کے بارے میں خبر آئی تو ایسا لگ رہا تھا کہ یہ سی آئی اے کی کارستانی ہے۔
مقامی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کی اطلاعات کے مطابق امریکی ڈرون طیاروں کے جھُنڈ کے جھُنڈ اِن دور اتفادہ علاقوں پر پِل پڑے اور نو افراد کو ہلاک کردیا جِن میں القاعدہ کا ایک سینئر کمانڈر شامل تھا۔
اسلام آباد میں پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے امریکی سفارت خانے سے سرکاری طور پر احتجاج کیا۔ لیکن، اخبار کے بقول، تین امریکی عہدہ داروں نے جو ڈرون طیاروں کے پروگرام سے واقف ہیں کہا ہے کہ امریکہ نے یہ حملے نہیں کیے، کیونکہ جنوری کے بعد سے امریکہ نے ایسی کوئی کارروائی کی ہی نہیں۔ چناچہ، اس دور دراز قبائلی دیہات میں دراصل ہوا کیا، یہ واضح نہیں ہے۔ اور امریکیوں کا بہترین قیاس یہ ہے کہ ہو سکتا ہے کہ یہ پاکستان کی اپنی ہی کارستانی ہو جِس کا الزام امریکہ پر لگایا گیا ہو، تاکہ پاکستانی عوام کی نقطہ چینی سے بچا جائے۔
اخبار کہتا ہے کہ اگر یہ بات صحیح ہے تو اسے ستم ظریفی ہی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے، کیونکہ ڈرون حملوں کے ابتدائی مراحل کے دوران پاکستانی سرزمین پر اس امریکی سرگرمی پر پردہ ڈالنے کی غرض سے یہ غلط بیانی کی تھی کہ ڈرون حملے اُس نے خود کیے ہیں۔ لیکن، اب امریکیوں کی طرف سے یہ کہا جا رہا ہے کہ پاکستانی فوج اپنی سرگرمیوں کو چھُپانے کے خیال سے اِسی پروگرام کا استعمال کررہی ہو۔
اخبار نے پاکستانی فوجی ذرائع کے حوالے سے یہ بھی بتایا ہے کہ پاکستان کا ایر فورس عام طور پر اس قسم کے فضائی حملے نہیں کرتا، کیونکہ اُس کے پاس ایسے حملے کرنے کے لیے مناسب ہتھیار نہیں ہیں۔
ایک تحقیقی ادارہ ہے جو امریکی ڈرون طیاروں کے حملوں پر نظر رکھتا ہے ۔ اُس ادارے سے وابستہ کِرس وُڈس کے حوالے سے اخبار کہتا ہے کہ ڈرون طیاروں کے بارے میں ایک بات بالکل واضح ہے، وہ یہ کہ پاکستانیوں، امریکیوں اور طالبان کو یکساں طور پر اِن کے بارے میں اطلاعات اور اُن سے مرتب ہونے والے اثرات میں دلچسپی ہے۔ اِس لیے، وہ کہتے ہیں کہ وہ امریکیوں کے اس دعوے کو شک کی نگاہ سے دیکھیں گے کہ فروری کے حملوں میں اُن کا ہاتھ نہیں تھا، خاص طور پر اس حقیقت کے پیشِ نظر کہ القاعدہ کے ارکان کی ہلاکت سی آئی اے کے ملوث ہونے کی نشاندہی کرتی ہے۔
کینڈا سے امریکہ تیل لانے والی متنازع پائپ لائن کے بارے میں جو تازہ ترین تحقیقات کی گئی ہے، ’نیو یارک نیوز ڈے‘ کے مطابق، اُس میں ماحولیات کو نقصان پہنچنے کی کوئی نشاندہی نہیں کی گئی ہے۔ لہٰذا، اخبار کا صدر براک اوباما کو مشورہ ہے کہ وہ اِس عظیم پائپ لائن کو بچھانے کی اجازت دے دیں۔
اس پائپ لائن پر پانچ ارب 30کروڑ ڈالر لاگت آئے گی جو البرٹا، کینیڈا سے خلیج میکسیکو کے تیل صاف کرنے کے کارخانوں کو روزانہ آٹھ لاکھ 30ہزار بیرل تیل فراہم کرے گی۔
’وال سٹریٹ جرنل‘ کے مطابق ہندوستان کی حکومت عنقریب اقتصادی نُمو کی شرح کو بڑھانے کی غرض سے مزید اقدامات کا اعلان کرنے والی ہے جن کی مدد سے برآمدات میں بھی اضافہ ہوگا۔
یکم اپریل کو شروع ہونے والے سال کے بجٹ میں خسارے کا تناسب رواں سال کے پانچ اعشاریہ دو فی صد سے گھٹ کر چار اعشاریہ آٹھ فی صد ہوجائے گا۔
البتہ، حکومت نے اکتوبر دسمبر کی سہ ماہی کے بارے میں جو اعداد و شمار جاری کیے ہیں اس کے مطابق مجموعی قومی پیداوار میں ساڑھے چار فی صد کا اضافہ ہوا ہے جو 2011ء کی پہلی سہ ماہی کے اضافے کا تقریباً نصف بنتا ہے۔ شرح نمو میں اِس بھاری کمی کی وجہ افراط زر میں اضافہ اور بڑھتا ہوا مالیاتی خسارہ بتایا گیا ہے۔
مقامی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کی اطلاعات کے مطابق امریکی ڈرون طیاروں کے جھُنڈ کے جھُنڈ اِن دور اتفادہ علاقوں پر پِل پڑے اور نو افراد کو ہلاک کردیا جِن میں القاعدہ کا ایک سینئر کمانڈر شامل تھا۔
اسلام آباد میں پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے امریکی سفارت خانے سے سرکاری طور پر احتجاج کیا۔ لیکن، اخبار کے بقول، تین امریکی عہدہ داروں نے جو ڈرون طیاروں کے پروگرام سے واقف ہیں کہا ہے کہ امریکہ نے یہ حملے نہیں کیے، کیونکہ جنوری کے بعد سے امریکہ نے ایسی کوئی کارروائی کی ہی نہیں۔ چناچہ، اس دور دراز قبائلی دیہات میں دراصل ہوا کیا، یہ واضح نہیں ہے۔ اور امریکیوں کا بہترین قیاس یہ ہے کہ ہو سکتا ہے کہ یہ پاکستان کی اپنی ہی کارستانی ہو جِس کا الزام امریکہ پر لگایا گیا ہو، تاکہ پاکستانی عوام کی نقطہ چینی سے بچا جائے۔
اخبار کہتا ہے کہ اگر یہ بات صحیح ہے تو اسے ستم ظریفی ہی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے، کیونکہ ڈرون حملوں کے ابتدائی مراحل کے دوران پاکستانی سرزمین پر اس امریکی سرگرمی پر پردہ ڈالنے کی غرض سے یہ غلط بیانی کی تھی کہ ڈرون حملے اُس نے خود کیے ہیں۔ لیکن، اب امریکیوں کی طرف سے یہ کہا جا رہا ہے کہ پاکستانی فوج اپنی سرگرمیوں کو چھُپانے کے خیال سے اِسی پروگرام کا استعمال کررہی ہو۔
اخبار نے پاکستانی فوجی ذرائع کے حوالے سے یہ بھی بتایا ہے کہ پاکستان کا ایر فورس عام طور پر اس قسم کے فضائی حملے نہیں کرتا، کیونکہ اُس کے پاس ایسے حملے کرنے کے لیے مناسب ہتھیار نہیں ہیں۔
ایک تحقیقی ادارہ ہے جو امریکی ڈرون طیاروں کے حملوں پر نظر رکھتا ہے ۔ اُس ادارے سے وابستہ کِرس وُڈس کے حوالے سے اخبار کہتا ہے کہ ڈرون طیاروں کے بارے میں ایک بات بالکل واضح ہے، وہ یہ کہ پاکستانیوں، امریکیوں اور طالبان کو یکساں طور پر اِن کے بارے میں اطلاعات اور اُن سے مرتب ہونے والے اثرات میں دلچسپی ہے۔ اِس لیے، وہ کہتے ہیں کہ وہ امریکیوں کے اس دعوے کو شک کی نگاہ سے دیکھیں گے کہ فروری کے حملوں میں اُن کا ہاتھ نہیں تھا، خاص طور پر اس حقیقت کے پیشِ نظر کہ القاعدہ کے ارکان کی ہلاکت سی آئی اے کے ملوث ہونے کی نشاندہی کرتی ہے۔
کینڈا سے امریکہ تیل لانے والی متنازع پائپ لائن کے بارے میں جو تازہ ترین تحقیقات کی گئی ہے، ’نیو یارک نیوز ڈے‘ کے مطابق، اُس میں ماحولیات کو نقصان پہنچنے کی کوئی نشاندہی نہیں کی گئی ہے۔ لہٰذا، اخبار کا صدر براک اوباما کو مشورہ ہے کہ وہ اِس عظیم پائپ لائن کو بچھانے کی اجازت دے دیں۔
اس پائپ لائن پر پانچ ارب 30کروڑ ڈالر لاگت آئے گی جو البرٹا، کینیڈا سے خلیج میکسیکو کے تیل صاف کرنے کے کارخانوں کو روزانہ آٹھ لاکھ 30ہزار بیرل تیل فراہم کرے گی۔
’وال سٹریٹ جرنل‘ کے مطابق ہندوستان کی حکومت عنقریب اقتصادی نُمو کی شرح کو بڑھانے کی غرض سے مزید اقدامات کا اعلان کرنے والی ہے جن کی مدد سے برآمدات میں بھی اضافہ ہوگا۔
یکم اپریل کو شروع ہونے والے سال کے بجٹ میں خسارے کا تناسب رواں سال کے پانچ اعشاریہ دو فی صد سے گھٹ کر چار اعشاریہ آٹھ فی صد ہوجائے گا۔
البتہ، حکومت نے اکتوبر دسمبر کی سہ ماہی کے بارے میں جو اعداد و شمار جاری کیے ہیں اس کے مطابق مجموعی قومی پیداوار میں ساڑھے چار فی صد کا اضافہ ہوا ہے جو 2011ء کی پہلی سہ ماہی کے اضافے کا تقریباً نصف بنتا ہے۔ شرح نمو میں اِس بھاری کمی کی وجہ افراط زر میں اضافہ اور بڑھتا ہوا مالیاتی خسارہ بتایا گیا ہے۔