’نیو یارک ٹائمز‘ ایک ادارئے میں کہتا ہے کہ دہشت گردی کے ملزمان کے معاملے میں وہائٹ ہاؤس، دونوں جج اور پھانسی دینے کا کردار ادا نہیں کر سکتا۔
اخبار کہتا ہے کہ کوئی بھی امریکی وکیل استغاثہ کسی شخص کو جج یا جیوری کے احکامات کے بغیر نہ قید کر سکتا ہے اور نہ موت کے گھاٹ اُتار سکتا ہے، اور اس بنیادی اُصول کا اطلاق ایسے مشتبہ دہشت گرد پر بھی کسی طور کم نہیں ہوتا، جسے امریکی عاملہ سمندر پار موت کے گھاٹ اُتارنا چاہے، خاص طور اگر وُہ امریکی شہری ہو۔
اخبار کہتا ہے کہ قانون سازوں اور ماہرین کی بڑھتی ہوئی تعداد میں اب یہ احساس بڑھنے لگا ہے کہ اس قسم کی ہلاکتوں کے لئے، جو عام طور پر ڈرون طیاروں سے داغے گئے مزائیلوں کے ذریعے عمل میں آتی ہیں، کسی نہ کسی طور کی عدالتی نگرانی ضروری ہے۔ اور سی آئی اے کے نامزد ڈئریکٹر جان برنن کی سینیٹ میں سماعتوں کے دوران کئی سینیٹروں نے کہا ہے کہ وُہ ایک خصوصی عدالت قائم کرنے پر غور کر رہے ہیں، جو اُس عدالت کے مُشابہ ہوگی جس کے ذمّے وائر ٹیپینگ یا انٹلی جنس معلومات جمع کرنے کی اجازت دینا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ اس نے سنہ 2010 میں ایسی عدالت کے قیام کی تجویز رکھی تھی جو پہلے سے موجود غیر ملکی انٹلی جینس کی نگرانی کی عدالت کے مشابہ ہوگی۔
چنانچہ، اگر انتظامیہ کے پاس شواہد ہوں کہ کسی ملزم سے امریکہ کو دہشت گردانہ خطرہ ہے تو پھر ایسے ملزم کو ہلاک کئے جانے والوں کی فہرست میں ڈالنے سے پہلے یہ شواہد خُفیہ طور پر ایک عدالت میں پیش کرنے پڑیں گے۔
اخبار کہتا ہے کہ ایسی عدالت کے قیام کے لئے یہ تفصیلی وضاحت ضروری ہوگی کہ ایک ملزم کو کن حالات کی بنا پردُشمن کا جنگجُو قرار دیا جائے گا اور وہائٹ ہاؤس میں اس کے لئے جو طریقہ مروّج ہے، اُس کی تفصیلی وضاحت کرنی ہوگی، جب کہ اس عدالت کے کام کی نگرانی کانگریس خُود کرے گی۔ عدالت ڈرون حملوں کی اجازت دنیے کی مجاز نہیں ہوگی اور امریکی عاملہ کو اب بھی یہ اختیار ہوگا کہ وہ ہونے والے حملے کو روکنے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر اقدام کرے۔
اسی موضوع پر ’کرسچن سائنس مانٹر‘ نے مشورہ دیا ہے کہ کانگریس پر لازم ہے کہ اس پالیسی پر کُھل کر بحث کرے۔
اخبار کہتا ہےکہ عوام کی طرح جمہوریتوں کی طاقت کا راز اس میں ہے کہ وُہ اپنے اقدار پر مضبوطی سے قائم ر ہیں۔ اسی لئے، ضروری ہے کہ صدر اوبامہ نے ڈرون طیاروں سے لڑی جانے والی جنگ کے جن رہنما اصولوں کا انکشاف کیا ہے، اُنہیں کانگریس کو بڑی باریک بینی سے دیکھنا چاہئیے۔
اخبار کہتا ہے کہ صدر اوبامہ نے دہشت گردوں کو ٹھکانے لگانے کے لئے ڈرون طیاروں کا جو بے دریغ استعمال کیا ہے اس پر امریکی عوام کے درمیان زیادہ بحث نہیں ہوئی ہے۔ اور یہ کیسے معلوم ہو کہ ’سی آئی اے‘ جب پاکستان کے اندر ڈرون طیاروں کا استعمال کرتی ہے تو بے گُناہ لوگوں کی جانیں بچانے کے لئے کیا کُچھ کیا جاتا ہے؟
اس کے ساتھ ساتھ، اخبا ر یہ بھی کہتا ہےکہ کس قسم کے شواہد کی بنیاد پر صدر کسی شخص کو ہلاک کرنے کی فہرست میں شامل کرتے ہیں؟
اخبار کا سوال ہے کہ صدر کے ان فیصلوں پر عدالتوں کو کیوں اختیار نہیں دیا جا سکتا؟
شمالی کوریا کے تازہ جوہری تجربے پر ’شکاگو ٹربیون‘ ایک ادارئے میں کہتا ہے کہ اس کے بعد، اب یہ امیدیں دفن ہو چکی ہیں کہ شمالی کوریا کے نئے لیڈر کِم جان ان، بڑیں ہانکنا اور دہمکیاں دینا بند کرکے اپنے فاقہ زدہ عوام کی بُھوک مٹانے کی کوشش شروع کریں گے۔
اخبار کہتا ہے کہ امریکی دباؤ، غذائی اورد وسری امداد کا حربہ بار بار آزمایا گیا ہے، لیکن بے سُود۔ البتہ، شمالی کوریا کا اصل اتّحادی چین اگر چاہے تو شمالی کوریا کی خوراک اور تیل کی ضروریات کی ترسیل میں اڑچن ڈال سکتا ہے اور شمالی کوریا کی تجارت میں مشکل پیدا کر سکتا ہے۔
لیکن، چینیوں کو اس حکومت کو گرانے اور پھر ہزاروں پناہ گزینوں کو بھاگنے پر مجبور کرنے میں تامّل ہے۔ البتہ، کُچھ ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ نئے چینی لیڈر اور مستقبل کے صدر، ذی جِن پِنگ شائد اس بات کے لئے تیار ہوں کہ شمالی کوریا پر دباؤ بڑھایا جائے۔
چین نے مغربی عہدہ داروں کو حیرت میں ڈال دیا جب پچھلے ماہ اُس نے سلامتی کونسل کی تعزیرات کی اُس قرارداد پر دستخط کردئے جس کی وجہ سے شمالی کوریا کے اثاثے منجمد کردئے گئے ہیں اور شمالی کوریا کے عہدہ داروں کے سفر پر پابندی لگا دی گئی ہے۔
مسٹر ذی نے یہ بھی کہا کہ وہ امریکہ کے ساتھ چین کےنئے قسم کے تعلّقات چاہتے ہیں۔
اخبار کہتا ہےکہ اگر ایسی بات ہے تو انہیں شمالی کوریا کو ان حرکتوں سے باز رہنے پر مجبور کرنا چاہئے۔ بصورت دیگر، اس جوہری تجربے سے یہی ظاہر ہے کہ مزید تجربے ہونگے اور انہیں روکا نہیں جا سکتا۔
اخبار کہتا ہے کہ کوئی بھی امریکی وکیل استغاثہ کسی شخص کو جج یا جیوری کے احکامات کے بغیر نہ قید کر سکتا ہے اور نہ موت کے گھاٹ اُتار سکتا ہے، اور اس بنیادی اُصول کا اطلاق ایسے مشتبہ دہشت گرد پر بھی کسی طور کم نہیں ہوتا، جسے امریکی عاملہ سمندر پار موت کے گھاٹ اُتارنا چاہے، خاص طور اگر وُہ امریکی شہری ہو۔
اخبار کہتا ہے کہ قانون سازوں اور ماہرین کی بڑھتی ہوئی تعداد میں اب یہ احساس بڑھنے لگا ہے کہ اس قسم کی ہلاکتوں کے لئے، جو عام طور پر ڈرون طیاروں سے داغے گئے مزائیلوں کے ذریعے عمل میں آتی ہیں، کسی نہ کسی طور کی عدالتی نگرانی ضروری ہے۔ اور سی آئی اے کے نامزد ڈئریکٹر جان برنن کی سینیٹ میں سماعتوں کے دوران کئی سینیٹروں نے کہا ہے کہ وُہ ایک خصوصی عدالت قائم کرنے پر غور کر رہے ہیں، جو اُس عدالت کے مُشابہ ہوگی جس کے ذمّے وائر ٹیپینگ یا انٹلی جنس معلومات جمع کرنے کی اجازت دینا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ اس نے سنہ 2010 میں ایسی عدالت کے قیام کی تجویز رکھی تھی جو پہلے سے موجود غیر ملکی انٹلی جینس کی نگرانی کی عدالت کے مشابہ ہوگی۔
چنانچہ، اگر انتظامیہ کے پاس شواہد ہوں کہ کسی ملزم سے امریکہ کو دہشت گردانہ خطرہ ہے تو پھر ایسے ملزم کو ہلاک کئے جانے والوں کی فہرست میں ڈالنے سے پہلے یہ شواہد خُفیہ طور پر ایک عدالت میں پیش کرنے پڑیں گے۔
اخبار کہتا ہے کہ ایسی عدالت کے قیام کے لئے یہ تفصیلی وضاحت ضروری ہوگی کہ ایک ملزم کو کن حالات کی بنا پردُشمن کا جنگجُو قرار دیا جائے گا اور وہائٹ ہاؤس میں اس کے لئے جو طریقہ مروّج ہے، اُس کی تفصیلی وضاحت کرنی ہوگی، جب کہ اس عدالت کے کام کی نگرانی کانگریس خُود کرے گی۔ عدالت ڈرون حملوں کی اجازت دنیے کی مجاز نہیں ہوگی اور امریکی عاملہ کو اب بھی یہ اختیار ہوگا کہ وہ ہونے والے حملے کو روکنے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر اقدام کرے۔
اسی موضوع پر ’کرسچن سائنس مانٹر‘ نے مشورہ دیا ہے کہ کانگریس پر لازم ہے کہ اس پالیسی پر کُھل کر بحث کرے۔
اخبار کہتا ہےکہ عوام کی طرح جمہوریتوں کی طاقت کا راز اس میں ہے کہ وُہ اپنے اقدار پر مضبوطی سے قائم ر ہیں۔ اسی لئے، ضروری ہے کہ صدر اوبامہ نے ڈرون طیاروں سے لڑی جانے والی جنگ کے جن رہنما اصولوں کا انکشاف کیا ہے، اُنہیں کانگریس کو بڑی باریک بینی سے دیکھنا چاہئیے۔
اخبار کہتا ہے کہ صدر اوبامہ نے دہشت گردوں کو ٹھکانے لگانے کے لئے ڈرون طیاروں کا جو بے دریغ استعمال کیا ہے اس پر امریکی عوام کے درمیان زیادہ بحث نہیں ہوئی ہے۔ اور یہ کیسے معلوم ہو کہ ’سی آئی اے‘ جب پاکستان کے اندر ڈرون طیاروں کا استعمال کرتی ہے تو بے گُناہ لوگوں کی جانیں بچانے کے لئے کیا کُچھ کیا جاتا ہے؟
اس کے ساتھ ساتھ، اخبا ر یہ بھی کہتا ہےکہ کس قسم کے شواہد کی بنیاد پر صدر کسی شخص کو ہلاک کرنے کی فہرست میں شامل کرتے ہیں؟
اخبار کا سوال ہے کہ صدر کے ان فیصلوں پر عدالتوں کو کیوں اختیار نہیں دیا جا سکتا؟
شمالی کوریا کے تازہ جوہری تجربے پر ’شکاگو ٹربیون‘ ایک ادارئے میں کہتا ہے کہ اس کے بعد، اب یہ امیدیں دفن ہو چکی ہیں کہ شمالی کوریا کے نئے لیڈر کِم جان ان، بڑیں ہانکنا اور دہمکیاں دینا بند کرکے اپنے فاقہ زدہ عوام کی بُھوک مٹانے کی کوشش شروع کریں گے۔
اخبار کہتا ہے کہ امریکی دباؤ، غذائی اورد وسری امداد کا حربہ بار بار آزمایا گیا ہے، لیکن بے سُود۔ البتہ، شمالی کوریا کا اصل اتّحادی چین اگر چاہے تو شمالی کوریا کی خوراک اور تیل کی ضروریات کی ترسیل میں اڑچن ڈال سکتا ہے اور شمالی کوریا کی تجارت میں مشکل پیدا کر سکتا ہے۔
لیکن، چینیوں کو اس حکومت کو گرانے اور پھر ہزاروں پناہ گزینوں کو بھاگنے پر مجبور کرنے میں تامّل ہے۔ البتہ، کُچھ ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ نئے چینی لیڈر اور مستقبل کے صدر، ذی جِن پِنگ شائد اس بات کے لئے تیار ہوں کہ شمالی کوریا پر دباؤ بڑھایا جائے۔
چین نے مغربی عہدہ داروں کو حیرت میں ڈال دیا جب پچھلے ماہ اُس نے سلامتی کونسل کی تعزیرات کی اُس قرارداد پر دستخط کردئے جس کی وجہ سے شمالی کوریا کے اثاثے منجمد کردئے گئے ہیں اور شمالی کوریا کے عہدہ داروں کے سفر پر پابندی لگا دی گئی ہے۔
مسٹر ذی نے یہ بھی کہا کہ وہ امریکہ کے ساتھ چین کےنئے قسم کے تعلّقات چاہتے ہیں۔
اخبار کہتا ہےکہ اگر ایسی بات ہے تو انہیں شمالی کوریا کو ان حرکتوں سے باز رہنے پر مجبور کرنا چاہئے۔ بصورت دیگر، اس جوہری تجربے سے یہی ظاہر ہے کہ مزید تجربے ہونگے اور انہیں روکا نہیں جا سکتا۔