’وال سٹریٹ جرنل‘ کے مطابق ٹیکسوں کے نظام میں جو تبدیلی کی گئی ہے اُس کی رُو سےتقریباً 20 سال میں پہلی بار سب سے زیادہ آمدنی والوں کی ٹیکس کی شرح میں اضافہ کیا گیا ہے
امریکہ نام نہاد ’فٕسکل کلف‘ سے گرنے سے بچ گیا ہے اور جیسا کہ ’واشنگٹن پوسٹ‘ اخبار کہتا ہے امریکی کانگریس نے منگل کو علیٰ لصُّبح اس کا حل نکالا جب سینیٹ نے آٹھ کے مقابلے میں نواسی ووٹوں کی اکثریت سے اس کی منظوری دی، اور اسے ایوان نمائندگاں میں منظوری کے لئے بھیج دیا۔
اس معاہدے کی شرائط وہائٹ ہاؤس اور ری پپبلکن مذاکرات کار مِچ مکانل کے درمیان پیر کو طے پائیں اور نائب صدر جو بائڈن نے سینیٹ جاکر ناراض ڈیموکریٹک سینیٹروں کو راضی کیا۔
ڈیموکریٹوں کا کہنا تھا کہ گو وُہ اس پر خوش نہیں، لیکن اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہ تھا اور جیسا کہ ڈیموکریٹک سینیٹر ڈائی این فائن سٹائین نے کہاہے، سالہا سال کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ ایک بڑے مسئلے کا حل دونوں پارٹیوں کی حمائت سے ممکن ہوا ہے۔
’وال سٹریٹ جرنل‘ کے مطابق، ٹیکسوں کے نظام میں جو تبدیلی کی گئی ہے اُس کی رُو سےتقریباً 20 سال میں پہلی بار سب سے زیادہ آمدنی والوں کی ٹیکس کی شرح میں اضافہ کیا گیا ہے۔ اس میں امیر لوگوں کے لئے نئےضوابط مقرر کئے گئے ہیں جب کہ بیشتر لوگوں کی شرحوں میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے۔ ایک ماہر معاشیات کے بقول، آبادی کے ننیانوے فیصد کی انکم ٹیکس کی شرح میں کم و بیش کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
’لاس انجلس ٹائمز ‘کہتا ہے کہ صدر اوبامہ نے انتخابی مہم کے دوران امیروں پر ٹیکس بڑھانے کا جو دعدہ کیا تھا وہ انہوں نے پورا کر دکھایا ہے ۔ اور سینیٹ میں فسکل کلف سے بچنے کے لئے جس معاہدے کا اعلان کیا گیا ہے اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ کانگریس میں ری پبلکن ارکان اب ایک ایسے بل کی حمائت کر رہے ہیں جس کی رُو سے ٹیکسوں میں اضافہ ہوگا۔ جو، اخبار کی نظر میں، قوم کے مالی مسائل اور صدر اوبامہ کے دوبارہ منتخب ہونے کے بعد اُن کی طرف سے غیر معمولی مراعات سمجھی جائیں گی۔
کیا پیر کو طے پانے والا یہ معاہدہ صدر اوبامہ کے لئےصحیح معنوں میں کامیابی کی دلیل ثابت ہوگا یا اسے ہاتھ سے نکل جانے والے موقع کی نگاہ سے دیکھا جائے گا ۔ اخبار کی نظر میں اس کا دارومدار اگلی لڑائی کے نتیجے پر ہوگا۔ اور یہ لڑائی ایک تو طویل المیعاد خسارے کو کم کرنے اور حکومت کے قرض لینے کی حدّ بڑھانے پر ہوگی اور یہ فروری یا مارچ میں متوقع ہے، جب حکومت کے پاس بلوں کی ادائیگی کے کئے پیسہ ختم ہو جائے گا۔
’نیو یارک ٹائمز ‘ کہتا ہے کہ مالیاتی مسئلے کا جو یہ معتدل معاہدہ طےپایا ہے ، جارج بُش کےاُس دور کے بعد پہلا ہے جب سنہ 2001 میں ٹیکسوں میں تخفیف کی گئی تھی اور ملک پر بتدریج قرض کا بوجھ چڑھتا گیا ا ور اسی اعتبار سے اس کی اہمیت ہے۔ لیکن، اخبار کی نظر میں یہ ایک کمزور معاہدہ ہے جِس میں دولت مندوں کے ساتھ حد سے زیادہ فیاضانہ سلوک روا رکھا گیا ہے اور اس کی بدولت آمدنی اس حد تک نہیں آ سکے گی ، جس کی کہ سرکاری سرمایہ کاری کے لئے شدید ضرورت ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ چونکہ بُش دور کی ٹیکسوں کی مراعات یکم جنوری کو ویسے ہی ختم ہونے والی تھیں اس لئے ری پبلکن پارٹی کے لئے اس کے سوا چارہ نہ تھا کہ ان کے پارٹی کے فلسفے میں ٹیکس بڑھانے کی جو ممانعت ہے،اس سے روگردانی کی جائے۔
لیکن، اُنہوں نے ایسے دُور اندیشانہ معاہدے کا طے پانا ناممکن بنادیا، جس کی مدد سے تعلیم اور ذرائع آمدورفت کے شُعبوں کو ترقی دینے میں حکومت اپنے فرض سے صحیح طور پر عہدہ بر آ ہو سکے۔
ری پبلکنوں کے ساتھ اس سمجھوتے کی رو سے انکم ٹیکس کے لئے آمدنی کی شرح ساڑھے چار لاکھ ڈالر مقرّر کی گئی ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ یہ حد ڈھائی لاکھ ڈالر کی اُس حد سے کہیں زیادہ ہے جس پر صدر اوبامہ اپنی انتخابی مہم کے دوران زور دیتے آئے ہیں۔ اخبار نے اس پر بھی اُنگلی اُٹھائی ہے کہ انکم ٹیکس کے علاوہ قوم کی بھاری وراثتوں پر لگنے والے ٹیکس پر بھی صدر نے معمولی سے اضافے پر اکتفا کیا ہے اور امیر ترین خاندانوں کو بھاری رعائتیں دی ہیں۔ وہائٹ ہاؤس کے اس دعوے پر کہ اُس نے محصولات کے اہداف کا پچاسی فی صد حاصل کر لیا ہے اور دس سال میں چھ سو ارب ڈالر کی آمدنی حاصل ہوگی، جبکہ ری پبلکن اخراجات میں انتہائی بھاری کٹوتیاں کرانے میں ناکام ہوئے ہیں۔ اخبار کہتا ہے، کہ یہ لڑائی ابھی ختم نہیں ہوئی, کیونکہ دفاعی اور ملکی بجٹوں میں ایک سو دس ارب ڈالر کی کٹوتی ابھی مُذاکرات ہونے ہیں۔
’بوسٹن گلوب‘ اسی موضوع پر ایک ادارئے میں کہتا ہے کہ سنہ 2012 کے انتخابات کا واضح مینڈیٹ یہ تھا کہ قوم کے مالیاتی مسائل سے متوازن طریقے سے نمٹا جائے گا
تاکہ ایک عظیم معاہدہ طے پائے جس کی رُو سے بُش دور کی امیروں کو ملنے والی ٹیکسوں میں چھوٹ ختم ہو۔سوشیل سیکیورٹی اور میڈی کئیر میں مناسب تبدیلی کی جائے، غیر ضروری دفاعی اخراجات ختم ہوں, ٹیکسوں کے قواعد کے نقائص دور ہوں۔
اخبار کہتا ہے کہ اگر فسکل کلف ری پبلکن ارکان کانگریس میں معنی خیز تبدیلی نہیں پیدا کر سکا تو پھر کسی اور چیز سے ایسا ہونا ممکن نہیں۔ اس لئے آنے والے مہینوں دوران ذمہ دار ری پبلکن لیڈروں کا فرض بڑھ جاتا ہے اور بجٹ پر جو دہینگا مُشتی دیکھنے میں آئی ہے اُسے سیاسی منظرنامے کا مستقل فیچر نہیں بننے دینا چاہئے۔
اس معاہدے کی شرائط وہائٹ ہاؤس اور ری پپبلکن مذاکرات کار مِچ مکانل کے درمیان پیر کو طے پائیں اور نائب صدر جو بائڈن نے سینیٹ جاکر ناراض ڈیموکریٹک سینیٹروں کو راضی کیا۔
ڈیموکریٹوں کا کہنا تھا کہ گو وُہ اس پر خوش نہیں، لیکن اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہ تھا اور جیسا کہ ڈیموکریٹک سینیٹر ڈائی این فائن سٹائین نے کہاہے، سالہا سال کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ ایک بڑے مسئلے کا حل دونوں پارٹیوں کی حمائت سے ممکن ہوا ہے۔
’وال سٹریٹ جرنل‘ کے مطابق، ٹیکسوں کے نظام میں جو تبدیلی کی گئی ہے اُس کی رُو سےتقریباً 20 سال میں پہلی بار سب سے زیادہ آمدنی والوں کی ٹیکس کی شرح میں اضافہ کیا گیا ہے۔ اس میں امیر لوگوں کے لئے نئےضوابط مقرر کئے گئے ہیں جب کہ بیشتر لوگوں کی شرحوں میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے۔ ایک ماہر معاشیات کے بقول، آبادی کے ننیانوے فیصد کی انکم ٹیکس کی شرح میں کم و بیش کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
’لاس انجلس ٹائمز ‘کہتا ہے کہ صدر اوبامہ نے انتخابی مہم کے دوران امیروں پر ٹیکس بڑھانے کا جو دعدہ کیا تھا وہ انہوں نے پورا کر دکھایا ہے ۔ اور سینیٹ میں فسکل کلف سے بچنے کے لئے جس معاہدے کا اعلان کیا گیا ہے اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ کانگریس میں ری پبلکن ارکان اب ایک ایسے بل کی حمائت کر رہے ہیں جس کی رُو سے ٹیکسوں میں اضافہ ہوگا۔ جو، اخبار کی نظر میں، قوم کے مالی مسائل اور صدر اوبامہ کے دوبارہ منتخب ہونے کے بعد اُن کی طرف سے غیر معمولی مراعات سمجھی جائیں گی۔
کیا پیر کو طے پانے والا یہ معاہدہ صدر اوبامہ کے لئےصحیح معنوں میں کامیابی کی دلیل ثابت ہوگا یا اسے ہاتھ سے نکل جانے والے موقع کی نگاہ سے دیکھا جائے گا ۔ اخبار کی نظر میں اس کا دارومدار اگلی لڑائی کے نتیجے پر ہوگا۔ اور یہ لڑائی ایک تو طویل المیعاد خسارے کو کم کرنے اور حکومت کے قرض لینے کی حدّ بڑھانے پر ہوگی اور یہ فروری یا مارچ میں متوقع ہے، جب حکومت کے پاس بلوں کی ادائیگی کے کئے پیسہ ختم ہو جائے گا۔
’نیو یارک ٹائمز ‘ کہتا ہے کہ مالیاتی مسئلے کا جو یہ معتدل معاہدہ طےپایا ہے ، جارج بُش کےاُس دور کے بعد پہلا ہے جب سنہ 2001 میں ٹیکسوں میں تخفیف کی گئی تھی اور ملک پر بتدریج قرض کا بوجھ چڑھتا گیا ا ور اسی اعتبار سے اس کی اہمیت ہے۔ لیکن، اخبار کی نظر میں یہ ایک کمزور معاہدہ ہے جِس میں دولت مندوں کے ساتھ حد سے زیادہ فیاضانہ سلوک روا رکھا گیا ہے اور اس کی بدولت آمدنی اس حد تک نہیں آ سکے گی ، جس کی کہ سرکاری سرمایہ کاری کے لئے شدید ضرورت ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ چونکہ بُش دور کی ٹیکسوں کی مراعات یکم جنوری کو ویسے ہی ختم ہونے والی تھیں اس لئے ری پبلکن پارٹی کے لئے اس کے سوا چارہ نہ تھا کہ ان کے پارٹی کے فلسفے میں ٹیکس بڑھانے کی جو ممانعت ہے،اس سے روگردانی کی جائے۔
لیکن، اُنہوں نے ایسے دُور اندیشانہ معاہدے کا طے پانا ناممکن بنادیا، جس کی مدد سے تعلیم اور ذرائع آمدورفت کے شُعبوں کو ترقی دینے میں حکومت اپنے فرض سے صحیح طور پر عہدہ بر آ ہو سکے۔
ری پبلکنوں کے ساتھ اس سمجھوتے کی رو سے انکم ٹیکس کے لئے آمدنی کی شرح ساڑھے چار لاکھ ڈالر مقرّر کی گئی ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ یہ حد ڈھائی لاکھ ڈالر کی اُس حد سے کہیں زیادہ ہے جس پر صدر اوبامہ اپنی انتخابی مہم کے دوران زور دیتے آئے ہیں۔ اخبار نے اس پر بھی اُنگلی اُٹھائی ہے کہ انکم ٹیکس کے علاوہ قوم کی بھاری وراثتوں پر لگنے والے ٹیکس پر بھی صدر نے معمولی سے اضافے پر اکتفا کیا ہے اور امیر ترین خاندانوں کو بھاری رعائتیں دی ہیں۔ وہائٹ ہاؤس کے اس دعوے پر کہ اُس نے محصولات کے اہداف کا پچاسی فی صد حاصل کر لیا ہے اور دس سال میں چھ سو ارب ڈالر کی آمدنی حاصل ہوگی، جبکہ ری پبلکن اخراجات میں انتہائی بھاری کٹوتیاں کرانے میں ناکام ہوئے ہیں۔ اخبار کہتا ہے، کہ یہ لڑائی ابھی ختم نہیں ہوئی, کیونکہ دفاعی اور ملکی بجٹوں میں ایک سو دس ارب ڈالر کی کٹوتی ابھی مُذاکرات ہونے ہیں۔
’بوسٹن گلوب‘ اسی موضوع پر ایک ادارئے میں کہتا ہے کہ سنہ 2012 کے انتخابات کا واضح مینڈیٹ یہ تھا کہ قوم کے مالیاتی مسائل سے متوازن طریقے سے نمٹا جائے گا
تاکہ ایک عظیم معاہدہ طے پائے جس کی رُو سے بُش دور کی امیروں کو ملنے والی ٹیکسوں میں چھوٹ ختم ہو۔سوشیل سیکیورٹی اور میڈی کئیر میں مناسب تبدیلی کی جائے، غیر ضروری دفاعی اخراجات ختم ہوں, ٹیکسوں کے قواعد کے نقائص دور ہوں۔
اخبار کہتا ہے کہ اگر فسکل کلف ری پبلکن ارکان کانگریس میں معنی خیز تبدیلی نہیں پیدا کر سکا تو پھر کسی اور چیز سے ایسا ہونا ممکن نہیں۔ اس لئے آنے والے مہینوں دوران ذمہ دار ری پبلکن لیڈروں کا فرض بڑھ جاتا ہے اور بجٹ پر جو دہینگا مُشتی دیکھنے میں آئی ہے اُسے سیاسی منظرنامے کا مستقل فیچر نہیں بننے دینا چاہئے۔