امریکہ کی تاریخ میں صرف دو صدور نے چار مرتبہ اپنے عہدے کا حلف اُٹھایا ہے، ایک تو فرینکلن ڈِلنو روزویلٹ اور دوسرے موجودہ صدر براک اوباما
پیر کے روز امریکی اخبارات کی زیادہ توجہ صدر براک اوباما کی دوسری میعاد صدارت کی تقریبات پر مرکوز رہی، خاص طور پر واشنگٹن ڈی سی میں اُن کی رسم حلف برداری کی تقریب پر جس میں سارے ملک سے آئے ہوئے لاکھوں کے جمِ غفیر نے شرکت کی۔
امریکی ذرائع ابلاغ میں اس موقع پر بعض دلچسپ حقائق کا ذکر ہے جن میں سے ایک یہ ہے کہ امریکہ کی تاریخ میں صرف دو صدور نے چار مرتبہ اپنے عہدے کا حلف اُٹھایا ہے، ایک تو فرینکلن ڈِلنو روزویلٹ اور دوسرے موجودہ صدر براک اوباما۔
فرینکلن روزویلٹ نے اس وجہ سے چار مرتبہ حلف اٹھایا تھا کیونکہ وہ چار مرتبہ صدر منتخب ہوئے تھے اور یہ امتیاز کسی اور صدر کو نصیب نہیں ہوا ہے۔ اور اب ویسے بھی ایک آئینی ترمیم کی رُو سے کوئی شخص دو سے زیادہ بار صدر کا انتخاب نہیں لڑ سکتا۔
صدر اوباما کے چار مرتبہ حلف اٹھانے کے اجمال کی تفصیل کچھ یوں گے کہ پہلی مرتبہ منتخب ہونے کے بعد جب 20جنوری 2009ء کو وہ حلف اُٹھارہے تھے تو چیف جسٹس جان رابرٹس نے حلف کا متن پڑھنے میں غلطیاں کیں اس وجہ سے اگلے روز صدر اوباما کو چیف جسٹس کے ہاتھوں نئے سرے سے حلف اٹھانا پڑا تھا۔
اس سال صدر اوباما کے دوبارہ منتخب ہونے پر حلف وفاداری کی تقریب 20 جنوری کو اتوار کا دن تھا۔ لیکن، عوامی تقریب کے لیے 21 جنوری کا دِن مقرر تھا۔
آئین کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے اُنھوں نے 20جنوری کو حلف اُٹھایا اور پھر پیر 21جنوری کو عوامی تقریب میں واشنگٹن کے مال میں جمع لاکھوں کے مجمعے میں یہ حلف دہرانا قرار پایا۔
اب کی بار چیف جسٹس جان رابرٹس نے چار سال پہلے کی غلطی سے بچنے کے لیے سخت احتیاط برتی تھی اور چھ نومبر کو صدر اوباما جب دوبارہ صدر منتخب ہوئے تو دونوں نے حلف وفاداری کے کارڈ کی کاپیوں کا تبادلہ کیا جس میں کُل 35الفاظ ہیں۔
اسی طرح نائب صدر جو بائڈن نے بھی اتوار کے روز نیول آبزرویٹری میں اپنی رہائش گاہ پر جسٹس سونیا سوٹومیور کے ہاتھوں حلف وفاداری لیا۔ وہ پہلی ہسپینک خاتون جج ہیں جنھوں نے صدارتی حلف دلانے کا فرض نبھایا ہے اور ’نیو یارک ٹائمز‘ کے مطابق، جو بائڈن نے اس تقریب کے لیے اپنے خاندان کی 19ویں صدی کی اُسی انجیل مقدس پر یہ حلف اٹھایا جو وہ 1973ء میں سنیٹ کی رکنیت حاصل کرنے کے بعد سے استعمال کرتے آئے ہیں۔
پیر کے صفحہ ٴ اول پر ’واشنگٹن پوسٹ‘ کی سرخی ہے صدر اوباما کی دوسری میعاد صدارت کا آغاز اس خیال سے کہ وہ اپنے پیچھے کیا ترکہ چھوڑیں گے۔اوباما نے ایک مبارزت طلب ایجنڈا مرتب کیا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ دوسری میعاد صدارت کے دوران ملک کے اندر صدر اوباما کا جو ایجنڈا ہوگا اس میں سیاسی اعتبار سے متنازع مسائل شامل ہیں، مثلاً امی گریشن کے قوانین میں تبدیلیاں موسمیاتی تبدیلی اور بارودی اسلحے پر کنٹرول کے لیے اقدامات، خارجہ امور میں مسٹر اوباما کو اپنے ایجنڈے کی وضاحت کرنے کا چیلنج درپیش ہوگا۔ بجائے اس کے حالات اس کا تعین کریں اور اس میں مشرق وسطیٰ میں ہونے والی بغاوتیں اور اُن سے نمٹنا شامل ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ اپنے نصب العین کے حصول کے لیے وہ جو طریقہ اپنائیں گے وہ اُن کی کامیاب انتخابی مہم کے مشابہ ہوگا جس مین اُنھوں نے رائے عامہ کو اپنے نقطہٴ نظر کا قائل کیا تھا۔
’لاس ایجیلس ٹائمز‘ کہتا ہے کہ چار سال قبل جب براک اوباما نے زمام صدارت سنبھالی تھی تو ملک دو جنگوں میں الجھا ہوا تھا اور نصف صدی سے زیادہ عرصے کے بدترین مالی بحران میں پھنسا ہوا تھا۔ لیکن، اُن کی صدارت کی دوسری میعاد کے آغاز پر ایک جنگ کا خاتمہ ہوچکا ہے اور معیشت بحالی کی طرف گامزن ہے۔ لیکن، واشنگٹن پر تلخ سیاسی تعطل غالب ہے جو ملک کی سنگین پارٹی بازی کے گہرے اختلاف کا عکاس ہے۔
مسٹر اوباما کی دوسری میعاد صدارت کے آغاز پر ’نیو یارک ٹائمز‘ یاد دلاتا ہے کہ چار سال قبل جب اُنھوں نے یہ عہدہ سنبھالا تھا تو اُنھوں نے افتتاحی تقریر میں عہد کیا تھا کہ اُن کی خارجہ پالیسی کا ایجنڈا اُن کے پیشرو جارج ڈبلیو بُش سے مختلف ہوگا۔ اُس میں وہ ملک کے دشمنوں کو براہِ راست مخاطب ہوئے تھے اور دہشت گردوں کو انتباہ کیا تھا کہ ہم تمھیں شکست دیں گے اور اسلامی دنیا کو بتادیا تھا کہ امریکہ آگے کی طرف ایک نئے راستے کا متمنی ہے جس کی بنیاد باہمی مفاد اور باہمی احترام پر ہو۔
اور اب جب اُن کی دوسری میعاد صدارت کا آغاز ہوچکا ہے وہ یہ لڑائی القاعدہ تک لے گئے ہیں۔ اُس کے لیڈر اوسامہ بن لادن کو ہلاک کیا گیا ہے اور ڈرون طیاروں کی مدد سے اس کے چوٹی کے ارکان کو کیفرِ کردار تک پہنچا دیا گیا ہے۔
امریکہ عراق سے نکل آیا ہے اور افغانستان میں جو طویل جنگ جاری ہے اس سے بھی علیحدہ ہو رہا ہے۔
لیکن، اخبار کہتا ہے کہ ایران ابھی تک جوہری ہتھیار حاصل کرنے کے پروگرام سے دست بردار ہونے کو تیار نہیں، جب کہ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں بد امنی نے مسٹر اوباما کے اُس عہد کو نبھانا زیادہ مشکل بنا دیا ہے جس کا مقصد دنیائے اسلام کے ساتھ روابط کی نئی راہ تلاش کرنا ہے۔
’وال سٹریٹ جرنل‘ کہتا ہے کہ مسٹر اوباما کی دوسری میعاد صدارت پر اُنھیں مشکل سیاسی منظرنامے کا سامنا ہے۔ 2012ء کے انتخابات میں جو اربوں ڈالر خرچ کیے گئے اُن کے باوجود واشنگٹن میں وہی سابقہ توازنِ اقتدار برقرار رہا، یعنی وائٹ ہاؤس اور سنیٹ پر ڈیموکریٹ قابض ہیں، جبکہ ایوانِ نمائندگان پر ریپبلیکن تسلط ہے۔
انتخابات سے قبل مسٹر اوباما نے اس امید کا اظہار کیا تھا کہ ری پبلیکن بخار ٹوٹ جائے گا اور قانون ساز مصالحت کی طرف زیادہ مائل ہوں گے۔ اخبار کا خیال ہے کہ اوباما کا پلّہ اب شاید پہلے سے بھاری ہے۔
نام نہاد فسکل کلف کا مسئلہ کم و بیش مسٹر اوباما ہی کی شرائط پر طے ہوا تھا، جب ریپبلیکنز صاحب ثروت لوگوں کے ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ کرنے پر راضی ہوگئے اور ایوان کے ریپبلیکنز نے اب کہہ دیا ہے کہ وہ حکومت کے لیے قرض لینے کی میعاد میں تین ماہ کا اضافہ کردیں گے۔
اخبار کہتا ہے کہ صدر اوباما کی یہ کامیابی اُن کی سیاسی مستقل مزاجی کی دلیل ہے اور اس کی بھی کہ اس ملک نے جو نسلی منافرت کا شکار رہا ہے ارتقا کی منزلیں طےکر لی ہیں۔
اخبار ’یو ایس اے ٹوڈے‘ نے ایک اداریے میں صدر اوباما کو دوسری میعاد کے آغاز پر مشورہ دیا ہے کہ ماضی قریب کے صدرو کے مقابلےت میں زیادہ جرٴاتمند انداز میں قومی مفادات کو آگے بڑھانا چاہئیے۔
اخبار کہتا ہے کہ اوباما کے دوبارہ منتخب ہونے کے پیچھے اُن کے بامقصد پہلے چار سال ہیں۔ اُنھوں نے دنیا کے سب سے زیادہ مطلوب دہشت گرد کو ٹھکانے لگا دیا۔ اُنھوں نے موٹر کار صنعت کو بچایا۔ اور مالی بحران کو کساد بازاری کی طرف جانے سے روکا اور صحت کی نگہداشت کا تاریخی قانون منظور کروایا۔
لیکن، اخبار کے خیال میں صدر اوباما اس سے بھی بڑے کارناموں کے اہل ہیں۔ دوسرے صدر کی طرح اُنھیں بھی امن اور خوشحالی کی کسوٹی پر پرکھا جائے گا اور اُنھیں کامیاب ہونے کے لیے رقوم کو قرضداری کی عادت سے چھٹکارا دلانا ہوگا۔
قدامت پسند اخبار ’واشنگٹن ٹائمز‘ کہتا ہے کہ امریکی عوام صدر اوباما کی دوسری میعاد صدارت میں اپنے ملک کے بارے میں زیادہ پُرامید ہیں بہ نسبت چار سال پہلے کے جب مالی بحران سنگین تھا۔
اخبار کہتا ہے کہ مسٹر اوباما کی پہلی حلف وفاداری کی رسم سے قبل صدر جارج بش کے آٹھ سال کے دوران دونوں پارٹیوں کے درمیان چپقلش رہی جس کے بعد 50فی صد امریکیوں کی پیش گوئی تھی کہ دونوں پارٹیاں ایک دوسرے سےتعاون کرنے کی راہ ڈھونڈیں گی۔
لیکن، چار سال بعد اگرچہ واشنگٹن میں توازنِ اقتدار بالکل وہی ہے جو اس سے پہلے تھا، لیکن پیو انسٹی ٹیوٹ کے مطابق صرف 23فی صد امریکی کسی تعاون کی توقع کرتے ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ مسٹر اوباما نے اپنے اقتدار کے پہلے دو سال میں بہت کچھ حاصل کیا، لیکن اس میں اُنھیں ریپبلیکنوں کی حمایت حاصل نہیں تھی۔ حتیٰ کہ اُن کے صحت عامہ کی نگہداشت کے قانون کی نہ تو ایوان میں اور نہ سنیٹ میں کسی ریپبلیکن نے حمایت کی۔
اخبار ’ہیوسٹن کرانیکل‘ کہتا ہے کہ واشنگٹن ڈی سی میں صدر اوباما کی دوسری حلف وفاداری کے موقع پر سیاست دان پُرامید ہیں کہ صدر کی آخری مدت صدارت کے دوران انتظامیہ کی اولین ترجیح امی گریشن کے قوانین میں اصلاح کرنا ہوگی۔
امریکی ذرائع ابلاغ میں اس موقع پر بعض دلچسپ حقائق کا ذکر ہے جن میں سے ایک یہ ہے کہ امریکہ کی تاریخ میں صرف دو صدور نے چار مرتبہ اپنے عہدے کا حلف اُٹھایا ہے، ایک تو فرینکلن ڈِلنو روزویلٹ اور دوسرے موجودہ صدر براک اوباما۔
فرینکلن روزویلٹ نے اس وجہ سے چار مرتبہ حلف اٹھایا تھا کیونکہ وہ چار مرتبہ صدر منتخب ہوئے تھے اور یہ امتیاز کسی اور صدر کو نصیب نہیں ہوا ہے۔ اور اب ویسے بھی ایک آئینی ترمیم کی رُو سے کوئی شخص دو سے زیادہ بار صدر کا انتخاب نہیں لڑ سکتا۔
صدر اوباما کے چار مرتبہ حلف اٹھانے کے اجمال کی تفصیل کچھ یوں گے کہ پہلی مرتبہ منتخب ہونے کے بعد جب 20جنوری 2009ء کو وہ حلف اُٹھارہے تھے تو چیف جسٹس جان رابرٹس نے حلف کا متن پڑھنے میں غلطیاں کیں اس وجہ سے اگلے روز صدر اوباما کو چیف جسٹس کے ہاتھوں نئے سرے سے حلف اٹھانا پڑا تھا۔
اس سال صدر اوباما کے دوبارہ منتخب ہونے پر حلف وفاداری کی تقریب 20 جنوری کو اتوار کا دن تھا۔ لیکن، عوامی تقریب کے لیے 21 جنوری کا دِن مقرر تھا۔
آئین کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے اُنھوں نے 20جنوری کو حلف اُٹھایا اور پھر پیر 21جنوری کو عوامی تقریب میں واشنگٹن کے مال میں جمع لاکھوں کے مجمعے میں یہ حلف دہرانا قرار پایا۔
اب کی بار چیف جسٹس جان رابرٹس نے چار سال پہلے کی غلطی سے بچنے کے لیے سخت احتیاط برتی تھی اور چھ نومبر کو صدر اوباما جب دوبارہ صدر منتخب ہوئے تو دونوں نے حلف وفاداری کے کارڈ کی کاپیوں کا تبادلہ کیا جس میں کُل 35الفاظ ہیں۔
اسی طرح نائب صدر جو بائڈن نے بھی اتوار کے روز نیول آبزرویٹری میں اپنی رہائش گاہ پر جسٹس سونیا سوٹومیور کے ہاتھوں حلف وفاداری لیا۔ وہ پہلی ہسپینک خاتون جج ہیں جنھوں نے صدارتی حلف دلانے کا فرض نبھایا ہے اور ’نیو یارک ٹائمز‘ کے مطابق، جو بائڈن نے اس تقریب کے لیے اپنے خاندان کی 19ویں صدی کی اُسی انجیل مقدس پر یہ حلف اٹھایا جو وہ 1973ء میں سنیٹ کی رکنیت حاصل کرنے کے بعد سے استعمال کرتے آئے ہیں۔
پیر کے صفحہ ٴ اول پر ’واشنگٹن پوسٹ‘ کی سرخی ہے صدر اوباما کی دوسری میعاد صدارت کا آغاز اس خیال سے کہ وہ اپنے پیچھے کیا ترکہ چھوڑیں گے۔اوباما نے ایک مبارزت طلب ایجنڈا مرتب کیا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ دوسری میعاد صدارت کے دوران ملک کے اندر صدر اوباما کا جو ایجنڈا ہوگا اس میں سیاسی اعتبار سے متنازع مسائل شامل ہیں، مثلاً امی گریشن کے قوانین میں تبدیلیاں موسمیاتی تبدیلی اور بارودی اسلحے پر کنٹرول کے لیے اقدامات، خارجہ امور میں مسٹر اوباما کو اپنے ایجنڈے کی وضاحت کرنے کا چیلنج درپیش ہوگا۔ بجائے اس کے حالات اس کا تعین کریں اور اس میں مشرق وسطیٰ میں ہونے والی بغاوتیں اور اُن سے نمٹنا شامل ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ اپنے نصب العین کے حصول کے لیے وہ جو طریقہ اپنائیں گے وہ اُن کی کامیاب انتخابی مہم کے مشابہ ہوگا جس مین اُنھوں نے رائے عامہ کو اپنے نقطہٴ نظر کا قائل کیا تھا۔
’لاس ایجیلس ٹائمز‘ کہتا ہے کہ چار سال قبل جب براک اوباما نے زمام صدارت سنبھالی تھی تو ملک دو جنگوں میں الجھا ہوا تھا اور نصف صدی سے زیادہ عرصے کے بدترین مالی بحران میں پھنسا ہوا تھا۔ لیکن، اُن کی صدارت کی دوسری میعاد کے آغاز پر ایک جنگ کا خاتمہ ہوچکا ہے اور معیشت بحالی کی طرف گامزن ہے۔ لیکن، واشنگٹن پر تلخ سیاسی تعطل غالب ہے جو ملک کی سنگین پارٹی بازی کے گہرے اختلاف کا عکاس ہے۔
مسٹر اوباما کی دوسری میعاد صدارت کے آغاز پر ’نیو یارک ٹائمز‘ یاد دلاتا ہے کہ چار سال قبل جب اُنھوں نے یہ عہدہ سنبھالا تھا تو اُنھوں نے افتتاحی تقریر میں عہد کیا تھا کہ اُن کی خارجہ پالیسی کا ایجنڈا اُن کے پیشرو جارج ڈبلیو بُش سے مختلف ہوگا۔ اُس میں وہ ملک کے دشمنوں کو براہِ راست مخاطب ہوئے تھے اور دہشت گردوں کو انتباہ کیا تھا کہ ہم تمھیں شکست دیں گے اور اسلامی دنیا کو بتادیا تھا کہ امریکہ آگے کی طرف ایک نئے راستے کا متمنی ہے جس کی بنیاد باہمی مفاد اور باہمی احترام پر ہو۔
اور اب جب اُن کی دوسری میعاد صدارت کا آغاز ہوچکا ہے وہ یہ لڑائی القاعدہ تک لے گئے ہیں۔ اُس کے لیڈر اوسامہ بن لادن کو ہلاک کیا گیا ہے اور ڈرون طیاروں کی مدد سے اس کے چوٹی کے ارکان کو کیفرِ کردار تک پہنچا دیا گیا ہے۔
امریکہ عراق سے نکل آیا ہے اور افغانستان میں جو طویل جنگ جاری ہے اس سے بھی علیحدہ ہو رہا ہے۔
لیکن، اخبار کہتا ہے کہ ایران ابھی تک جوہری ہتھیار حاصل کرنے کے پروگرام سے دست بردار ہونے کو تیار نہیں، جب کہ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں بد امنی نے مسٹر اوباما کے اُس عہد کو نبھانا زیادہ مشکل بنا دیا ہے جس کا مقصد دنیائے اسلام کے ساتھ روابط کی نئی راہ تلاش کرنا ہے۔
’وال سٹریٹ جرنل‘ کہتا ہے کہ مسٹر اوباما کی دوسری میعاد صدارت پر اُنھیں مشکل سیاسی منظرنامے کا سامنا ہے۔ 2012ء کے انتخابات میں جو اربوں ڈالر خرچ کیے گئے اُن کے باوجود واشنگٹن میں وہی سابقہ توازنِ اقتدار برقرار رہا، یعنی وائٹ ہاؤس اور سنیٹ پر ڈیموکریٹ قابض ہیں، جبکہ ایوانِ نمائندگان پر ریپبلیکن تسلط ہے۔
انتخابات سے قبل مسٹر اوباما نے اس امید کا اظہار کیا تھا کہ ری پبلیکن بخار ٹوٹ جائے گا اور قانون ساز مصالحت کی طرف زیادہ مائل ہوں گے۔ اخبار کا خیال ہے کہ اوباما کا پلّہ اب شاید پہلے سے بھاری ہے۔
نام نہاد فسکل کلف کا مسئلہ کم و بیش مسٹر اوباما ہی کی شرائط پر طے ہوا تھا، جب ریپبلیکنز صاحب ثروت لوگوں کے ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ کرنے پر راضی ہوگئے اور ایوان کے ریپبلیکنز نے اب کہہ دیا ہے کہ وہ حکومت کے لیے قرض لینے کی میعاد میں تین ماہ کا اضافہ کردیں گے۔
اخبار کہتا ہے کہ صدر اوباما کی یہ کامیابی اُن کی سیاسی مستقل مزاجی کی دلیل ہے اور اس کی بھی کہ اس ملک نے جو نسلی منافرت کا شکار رہا ہے ارتقا کی منزلیں طےکر لی ہیں۔
اخبار ’یو ایس اے ٹوڈے‘ نے ایک اداریے میں صدر اوباما کو دوسری میعاد کے آغاز پر مشورہ دیا ہے کہ ماضی قریب کے صدرو کے مقابلےت میں زیادہ جرٴاتمند انداز میں قومی مفادات کو آگے بڑھانا چاہئیے۔
اخبار کہتا ہے کہ اوباما کے دوبارہ منتخب ہونے کے پیچھے اُن کے بامقصد پہلے چار سال ہیں۔ اُنھوں نے دنیا کے سب سے زیادہ مطلوب دہشت گرد کو ٹھکانے لگا دیا۔ اُنھوں نے موٹر کار صنعت کو بچایا۔ اور مالی بحران کو کساد بازاری کی طرف جانے سے روکا اور صحت کی نگہداشت کا تاریخی قانون منظور کروایا۔
لیکن، اخبار کے خیال میں صدر اوباما اس سے بھی بڑے کارناموں کے اہل ہیں۔ دوسرے صدر کی طرح اُنھیں بھی امن اور خوشحالی کی کسوٹی پر پرکھا جائے گا اور اُنھیں کامیاب ہونے کے لیے رقوم کو قرضداری کی عادت سے چھٹکارا دلانا ہوگا۔
قدامت پسند اخبار ’واشنگٹن ٹائمز‘ کہتا ہے کہ امریکی عوام صدر اوباما کی دوسری میعاد صدارت میں اپنے ملک کے بارے میں زیادہ پُرامید ہیں بہ نسبت چار سال پہلے کے جب مالی بحران سنگین تھا۔
اخبار کہتا ہے کہ مسٹر اوباما کی پہلی حلف وفاداری کی رسم سے قبل صدر جارج بش کے آٹھ سال کے دوران دونوں پارٹیوں کے درمیان چپقلش رہی جس کے بعد 50فی صد امریکیوں کی پیش گوئی تھی کہ دونوں پارٹیاں ایک دوسرے سےتعاون کرنے کی راہ ڈھونڈیں گی۔
لیکن، چار سال بعد اگرچہ واشنگٹن میں توازنِ اقتدار بالکل وہی ہے جو اس سے پہلے تھا، لیکن پیو انسٹی ٹیوٹ کے مطابق صرف 23فی صد امریکی کسی تعاون کی توقع کرتے ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ مسٹر اوباما نے اپنے اقتدار کے پہلے دو سال میں بہت کچھ حاصل کیا، لیکن اس میں اُنھیں ریپبلیکنوں کی حمایت حاصل نہیں تھی۔ حتیٰ کہ اُن کے صحت عامہ کی نگہداشت کے قانون کی نہ تو ایوان میں اور نہ سنیٹ میں کسی ریپبلیکن نے حمایت کی۔
اخبار ’ہیوسٹن کرانیکل‘ کہتا ہے کہ واشنگٹن ڈی سی میں صدر اوباما کی دوسری حلف وفاداری کے موقع پر سیاست دان پُرامید ہیں کہ صدر کی آخری مدت صدارت کے دوران انتظامیہ کی اولین ترجیح امی گریشن کے قوانین میں اصلاح کرنا ہوگی۔