امریکی اخبارات سے: اوباما کا دورہٴ مشرق وسطیٰ

’وال سٹریٹ جرنل‘ کہتا ہے کہ صدر اوباما کے پہلے دورے سے بعض اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے اندر یہ توقعات پیدا ہوگئی ہیں کہ اس کےنتیجے میں امن مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کا خواب پورا ہوگا، جو اُن کی پہلی مدّت صدارت میں شرمندہٴ تعبیر نہ ہو سکا تھا
صدر اوبامہ کے اسرائیل اور مغربی کنارے کے پہلے دورے کے بارے میں ’وال سٹریٹ جرنل‘ کہتا ہے کہ اس سے بعض اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے اندر یہ توقعات پیدا ہو گئی ہیں کہ اس کے نتیجے میں امن مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کا خواب پورا ہوگا، جو اُن کی پہلی مدّت صدارت میں شرمندہٴ تعبیر نہ ہو سکا تھا۔

موسم بہار میں ہونے والا یہ دورہ اور عرب اسرائیلی سفارت کاری کا امکان اگلی اسرائیلی حکومت کی تشکیل پر اثرانداز ہو گا، اور اخبار کا خیال ہے کہ نئی حکومت زیادہ اعتدال پسند ہوگی، اور جیسا کہ اسرائیلی لیبر پارٹی کے ایک سابق رکن پارلیمنٹ ڈینیل بِن سائیمن امریکہ کی واپسی کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہتے ہیں جب امریکہ بیچ میں نہیں ہوتا تو سوائے تباہی کے کُچھ نہیں ہوتا۔

اخبار کہتا ہے کہ مشرق وسطیٰ مذاکرات پر اس قنوطیت کے باوجود، وہائٹ ہاؤس کے ترجمان نے یہ بات واضح کردی ہے کہ صدر اوبامہ اس دورے میں امن کے عمل کے لئےکوئی مخصوص تجاویز لے کر نہیں جا رہے۔اور تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ایجنڈے میں علاقائی عدم استحکام اور ایران کے جوہری پروگرام کو اُتنی ہی اہمیت حاصل ہوگی اور امریکہ اور اُس کے اتحادیوں کے درمیان ابھی یہ طے نہیں ہوا ہے کہ تہران کے ساتھ سفارت کاری کو کتنا وقت دیا جائے اور اُس ریڈ لائن، یا سُرخ لکیر کو کتنا وقت دیا جائے جس کے بعد ایران کے خلاف امکانی فوجی حملہ شروع ہو جائے گا۔

مسٹر نیتن یاہو کا اصرار ہے کہ یہ حملہ ایران کے پاس ایک جوہری بم کے لئے کافی جوہری مواد تیار ہوجانے سے پہلے ہی ہو جانا چاہئے اور ان کا تخمینہ ہے کہ یہ وقت موسم بہار کے وسط میں آئے گا۔

اخبار کہتا ہے کہ صدر کے دورے کا اعلان ایسے میں کیا گیا ہے جب ایک امن معاہدے کے جلد امکانات کے بارے میں شبہات پائے جاتے ہیں اور اس بات پر تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے کہ مغربی کنارے پر ایک فلسطینی ریاست کے قیام کا امکان معدوم ہوتا جارہا ہے۔


اخبار کہتاہے کہ فلسطینی سنہ 2010 ءمیں صدر اوبامہ سے مایوس ہوگئے تھےجب انہوں نے مذاکرات کے آغاز سے قبل نئی یہودی بستیوں کی تعمیر بند کرنے کا مطالبہ ترک کر دیا اور اخبار نے فلسطین کی تنظیم آزادی کی ایک سرکردہ رکن حنّان اشروی کے حوالے سے بتایا ہے کہ آنے والے دورے سے ہمیں یہ توقع ہے کہ ماضی کی غلطیوں کا ازالہ کیا جائے گا اور ایک تازہ سیاسی عزم کا مظاہرہ کیا جائے گا۔

وال سٹریٹ جرنل کہتا ہے کہ دونوں حکومتوں کے درمیان مکالمہ شروع کرانے کی کوشش میں خطرہ پوشیدہ ہے، کیونکہ باہمی اعتماد کا فُقدان ہے۔

ادھر، ایران نے جو یہ اعلان کیا ہے کہ وہ اب یورینیم کی افزودگی کے لئے تین ہزار سینٹری فُیوج استعمال کرے گا، اُس پر ’واشنگٹن ٹائمز‘ ایک تجزئے میں کہتا ہے کہ اس کے نتیجے میں ایران کی یورینیم افزودہ کرنے کی صلا حیت چار گُنی بڑھ جائے گی۔ اور زیادہ تیز چلنے والے ان سنٹری فُیوجز کی مدد سے ایران بیس فی صد افزودہ یورینیم کو تقریبًا ایک ہفتے کے اندر مزید اتنا افزودہ کرسکتا ہے کہ اس سے ایک بم بن سکے۔

اخبار کا سوال ہے کیا وجہ ہے کہ ایران اس وقت بین الاقوامی براداری کو نظر انداز کرنے میں اتنی جراءت کا مظاہرہ کر رہا ہے۔

’اینٹرنیشنل ہیرلڈ ٹربیون‘ کے ایک مضمون کے مطابق ایشیا ایک ایسا براعظم ہے جسے پانی کے مسئلے کا سخت دباؤ ہےاور یہ مسلہ اس وجہ سے اور سنگین ہوگیا ہے کہ پانی کے وسائل میں چین کو برتری حاصل ہے اور چین نے حال ہی میں جو یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ اُن دریاؤں پر کئی سارے مزید بھاری بھرکم بند تعمیر کرے گا، جو دوسرے ملکوں میں بھی بہتے ہیں۔

اخبار کے بقول ساری دنیا میں پانی کے جتنے بڑے بڑے بند ہیں چین میں تعمیر کئے گئے بند اُن سب سے زیادہ ہیں اور اب چین نے اعلان کیا ہےکہ اگلے دس سال کے دوران مانی کے مزید بند تعمیر کرنے پر مزید695 ارب ڈالر سرمایہ لگائے گا۔