’یہ نیا ٹولہ سینکڑوں میل دور پہاڑی قبائلی علاقے سے کراچی منتقل ہوا ہے، اور اُس کے جتھوں نے شہر کے علاقوں میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنا شروع کیا ہے، اور پولیس سٹیشنوں پر گوریلا حملے کرکے پولیس اہل کاروں کو ہلاک کیا ہے‘: نیو یارک ٹائمز
پاکستانی طالبان کی دہشت گردانہ سرگرمیوں پر ’نیو یار ک ٹائمز ‘ کی ایک تفصیلی رپورٹ کے مطابق ان سرگرمیوں کا دائرہ کراچی کے وسیع و عریض ساحلی شہر تک پھیل گیا ہے۔
اخبار کے الفاظ میں، ’لگ بھگ دو کروڑ آبادی والے اس شہر میں برسوں سے ایسے سماج دُشمن مسلّح جتھوں کی کوئی کمی نہیں تھی۔ البتہ، یہ نیا ٹولہ سینکڑوں میل دور پہاڑی قبائلی علاقے سے وہاں منتقل ہوا ہے۔ اور اُس کے جتھوں نے شہر کے علاقوں میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنا شروع کیا ہے، اور پولیس سٹیشنوں پر گوریلا حملے کر کے پولیس اہل کاروں کو ہلاک کیا ہے۔ دولتمند تاجروں اور بیو پاریوں سے روپیہ اینٹھنا شروع کیا ہے، صحت عامہ کے کارکنوں کو ہلاک کیا ہے، طالبان مولویوں نے ایک متوازی عدالتی نظام قائم کیا ہے اور قضئے چُکانے میں ثالثی کا کام کرنا شروع کیا ہے۔‘
’کراچی میں جو اثرو نفوذ اس ٹولے نے حاصل کیا ہے اُس سے ظاہر ہے کہ پُورے ملک میں اب اُس کی پہنچ ہے۔ اور شہر میں جو جرائم پیشہ نسلی یا سیاسی جتھے موجود تھے وُہ اُن کی جڑیں کاٹ رہا ہے‘۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طالبان اس اعتبار سے مختلف ہیں کہ اُن کا ایجنڈا زیادہ وسیع ہے اور وُہ حکومت کا تختہ اُلٹنے کے در پے ہیں۔ اور اُن کی سرگرمیوں کو چلانے والے افغان سرحد سے ملحق قبائیلی علاقے میں بیٹھے ہوئے ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ طالبان نے ایک مُمتاز سیاسی تنظیم، عوامی نیشنل پارٹٰی کے دفاتر تباہ کرکے اور اس کے سیاسی کارکنوں کو خوفزدہ کر کے وہاں سے بھگا دیا ہے۔ جس سے مئی میں ہونے والے انتخابات میں اس پارٹی کے امکانات کو شدید دھچکہ پہنچ سکتا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ طالبان کے ہتھکنڈے منگھو پیر کے علاقے میں زیادہ دیکھنے میں آئے ہیں، جہاں تین مرتبہ پولیس سٹیشن پر حملہ کیا گیا اور آٹھ پولیس اہل کاروں کو ہلاک کیا گیا ۔
اس علاقے کے رہنے والوں نے اخبار کو بتایا کہ طالبان عسکریت پسند موٹر سائیکلوں یا جیپوں میں بیٹھ کر لوگوں سے بھتّے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اور یہ دو گولیوں کو کاغذ میں لپیٹ کر کیا جاتا ہے۔ منگھو پیر کی ایک فیکٹری کے مالک نے اس شرط پر کہ اُس کا نام نہ ظاہر کیا جائے، اخبار کو بتایا کہ متعدّد پشتُون تاجروں سے دس ہزار سے لے کر پچاس ہزار ڈالر تک کے بھتے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ طالبان کی کراچی منتقلی کئی سال پہلے شروع ہوئی تھی۔ لیکن سوات میں سنہ2009 میں اُن کے خلاف جو فوجی کاروائی ہوئی تھی، اس کے بعد اس میں تیزی آئی ہے۔ شہر میں پشتون آبادی کا اندازہ کم از کم 50 لاکھ ہے اس لئے طالبان کے لئے ان لوگوں میں گُھل مِل جانا آسان ہو گیا۔
اخبار نے پولیس کے عہدہ دداروں اور مقامی پشتون شہریوں کے حوالے سے بتایا ہے کہ کراچی میں اس وقت طالبان کے تین دھڑے سرگرم ہیں، جن میں سے سب سے زیادہ طاقت ور دھڑے کی جڑیں جنوبی وزیرستان میں ہیں۔ اور جس پر محسُود قبائیل کا غلبہ ہے۔ جب کہ باقی دو کا تعلُّق سوات اور مُہمند علاقوں سے ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ طالبان حملوں کے نتیجے میں کراچی میں عوامی نیشنل پارٹی کے 44 ضلعی دفاتر بند ہو چُکے ہیں۔ اس کے علاوہ طالبان نے متحدہ قومی موومنٹ پر دو حملے کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ ایک میں اس کے چار افراد ہلاک ہوئے تھے اور دوسرے میں اُس کا رُکن پارلیمنٹ مارا گیا تھا۔
طالبان کے ترجمان احسان اللہ احسان نے شمالی وزیرستان میں ’نیو یارک ٹائمز‘ کو ایک حالیہ انٹرویو میں بتایا تھا کہ طالبان نہ صرف ان دونوں پارٹیوں کو نشانہ بنا رہے ہیں، بلکہ صدر زراداری کی پیپلز پارٹی کو بھی اُس کی لبرل پالیسیوں کی بنا پر ہدف بنایا جا رہے۔
’کرسچن سائینس مانٹر‘ کہتا ہے کہ اگر آپ یہ جاننا چاہیں کہ اب تک عراق اور افغانستان کی جنگوں پر کتنی رقم لگ چُکی ہے تو ایک ویب سائٹ سے پوری معلومات دستیاب ہیں۔ عراق سے امریکی فوجیں نکل چُکی ہیں اور اس جنگ پر پہلے ہی 800 ارب ڈالر کا خرچ اُٹھ چُکا ہے۔ لیکن، جب آپ اس میں زخمی فوجیوں کے علاج معالجے فوجی گاڑیاں اور دوسرا سازو سامان بدلنے اور دوسرے اخراجات اس میں شامل کریں تو یہ رقم 10 کھرب ڈالر سے زیادہ بن جاتی ہے۔ صرف عراق کی جنگ کے ساڑھے آٹھ سال کے دوران اس پر 3000 ڈالر فی سیکنڈ خرچ اُٹھتا تھا ، اور صدر اوبامہ نے جو اعلان کیا ہے کہ سال کے آخر تک تمام فوجیں وہاں سے نکل آ ئیں گی۔ تو رواں فوجی خرچ میں تھوڑی سی کمی آئے گی۔ لیکن بجٹ میں جتنے فرق کی امید لگائی جا رہی ہے اُتنا نہیں ہوگا۔
اخبار کہتا ہے کہ جنگی اخراجات کے علاوہ اس انسانی پہلو کو بھی ملحوظ رکھنا چاہئے کہ عراق میں 4400 امریکی فوجی ہلاک ہوئے جب کہ 32 ہزار سے زیادہ فوجی زخمی ہوئے۔ ایک برطانوی طبّی جریدے کے مطابق جنگ میں ہلاک ہونے والے عراقی شہریوں کی تعداد کا اندازہ ساڑھے چھ لاکھ سے زیادہ ہے۔
اس طرح علاج معالجے پر اُٹھنے والے خرچ اور معذور ہو جانے والے فوجیوں کے معاوضے کی رقم ملا کر عراق کی جنگ پر اُٹھنے والا خرچ اس سے بھی زیادہ ہو جائے گا۔ اور جب اس میں جنگی گاڑیوں اور دوسرا سامان حرب بدلنے پر آنے والی لاگت کو شامل کیا جائے، تو کولمبیا یونیورسٹی کے ماہر معاشیات جوزیف سٹِگ لِٹز کے تخمینے کے مطابق اس جنگ پر مجموعی طور پر 60 کھرب ڈالر تک جا سکتی ہے۔
اخبار نے جنگ کے ایک اور پہلو کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا ہے کہ ایک طرف اس کی تیاریاں ہو رہی تھیں تو دوسری طرف کانگریس نے پہلے سنہ 2001 میں اور پھر سنہ 2003 میں دوبارہ ٹیکسوں میں چھوٹ دے دی۔ یعنی ایک طرح سے ان جنگوں پر اُٹھنے والا خرچ قرض لے کر پورا کیا، اور صدر جارج بُش کے عہدہ چھوڑتے وقت یہ قرضہ 106 کھرب ڈالر کی حد تک پہنچ چکا تھا۔
اخبار نے ایک اور دلچسپ پہلو کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا ہے کہ نیو یارک ورلڈ ٹریڈ سنٹر کو تباہ کرنے اور پینٹگاں کو نُقصان پہنچانے پر القاعدہ کا کُل خرچ پانچ لاکھ ڈالر تھا۔
اخبار کے الفاظ میں، ’لگ بھگ دو کروڑ آبادی والے اس شہر میں برسوں سے ایسے سماج دُشمن مسلّح جتھوں کی کوئی کمی نہیں تھی۔ البتہ، یہ نیا ٹولہ سینکڑوں میل دور پہاڑی قبائلی علاقے سے وہاں منتقل ہوا ہے۔ اور اُس کے جتھوں نے شہر کے علاقوں میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنا شروع کیا ہے، اور پولیس سٹیشنوں پر گوریلا حملے کر کے پولیس اہل کاروں کو ہلاک کیا ہے۔ دولتمند تاجروں اور بیو پاریوں سے روپیہ اینٹھنا شروع کیا ہے، صحت عامہ کے کارکنوں کو ہلاک کیا ہے، طالبان مولویوں نے ایک متوازی عدالتی نظام قائم کیا ہے اور قضئے چُکانے میں ثالثی کا کام کرنا شروع کیا ہے۔‘
’کراچی میں جو اثرو نفوذ اس ٹولے نے حاصل کیا ہے اُس سے ظاہر ہے کہ پُورے ملک میں اب اُس کی پہنچ ہے۔ اور شہر میں جو جرائم پیشہ نسلی یا سیاسی جتھے موجود تھے وُہ اُن کی جڑیں کاٹ رہا ہے‘۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طالبان اس اعتبار سے مختلف ہیں کہ اُن کا ایجنڈا زیادہ وسیع ہے اور وُہ حکومت کا تختہ اُلٹنے کے در پے ہیں۔ اور اُن کی سرگرمیوں کو چلانے والے افغان سرحد سے ملحق قبائیلی علاقے میں بیٹھے ہوئے ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ طالبان نے ایک مُمتاز سیاسی تنظیم، عوامی نیشنل پارٹٰی کے دفاتر تباہ کرکے اور اس کے سیاسی کارکنوں کو خوفزدہ کر کے وہاں سے بھگا دیا ہے۔ جس سے مئی میں ہونے والے انتخابات میں اس پارٹی کے امکانات کو شدید دھچکہ پہنچ سکتا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ طالبان کے ہتھکنڈے منگھو پیر کے علاقے میں زیادہ دیکھنے میں آئے ہیں، جہاں تین مرتبہ پولیس سٹیشن پر حملہ کیا گیا اور آٹھ پولیس اہل کاروں کو ہلاک کیا گیا ۔
اس علاقے کے رہنے والوں نے اخبار کو بتایا کہ طالبان عسکریت پسند موٹر سائیکلوں یا جیپوں میں بیٹھ کر لوگوں سے بھتّے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اور یہ دو گولیوں کو کاغذ میں لپیٹ کر کیا جاتا ہے۔ منگھو پیر کی ایک فیکٹری کے مالک نے اس شرط پر کہ اُس کا نام نہ ظاہر کیا جائے، اخبار کو بتایا کہ متعدّد پشتُون تاجروں سے دس ہزار سے لے کر پچاس ہزار ڈالر تک کے بھتے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ طالبان کی کراچی منتقلی کئی سال پہلے شروع ہوئی تھی۔ لیکن سوات میں سنہ2009 میں اُن کے خلاف جو فوجی کاروائی ہوئی تھی، اس کے بعد اس میں تیزی آئی ہے۔ شہر میں پشتون آبادی کا اندازہ کم از کم 50 لاکھ ہے اس لئے طالبان کے لئے ان لوگوں میں گُھل مِل جانا آسان ہو گیا۔
اخبار نے پولیس کے عہدہ دداروں اور مقامی پشتون شہریوں کے حوالے سے بتایا ہے کہ کراچی میں اس وقت طالبان کے تین دھڑے سرگرم ہیں، جن میں سے سب سے زیادہ طاقت ور دھڑے کی جڑیں جنوبی وزیرستان میں ہیں۔ اور جس پر محسُود قبائیل کا غلبہ ہے۔ جب کہ باقی دو کا تعلُّق سوات اور مُہمند علاقوں سے ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ طالبان حملوں کے نتیجے میں کراچی میں عوامی نیشنل پارٹی کے 44 ضلعی دفاتر بند ہو چُکے ہیں۔ اس کے علاوہ طالبان نے متحدہ قومی موومنٹ پر دو حملے کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ ایک میں اس کے چار افراد ہلاک ہوئے تھے اور دوسرے میں اُس کا رُکن پارلیمنٹ مارا گیا تھا۔
طالبان کے ترجمان احسان اللہ احسان نے شمالی وزیرستان میں ’نیو یارک ٹائمز‘ کو ایک حالیہ انٹرویو میں بتایا تھا کہ طالبان نہ صرف ان دونوں پارٹیوں کو نشانہ بنا رہے ہیں، بلکہ صدر زراداری کی پیپلز پارٹی کو بھی اُس کی لبرل پالیسیوں کی بنا پر ہدف بنایا جا رہے۔
’کرسچن سائینس مانٹر‘ کہتا ہے کہ اگر آپ یہ جاننا چاہیں کہ اب تک عراق اور افغانستان کی جنگوں پر کتنی رقم لگ چُکی ہے تو ایک ویب سائٹ سے پوری معلومات دستیاب ہیں۔ عراق سے امریکی فوجیں نکل چُکی ہیں اور اس جنگ پر پہلے ہی 800 ارب ڈالر کا خرچ اُٹھ چُکا ہے۔ لیکن، جب آپ اس میں زخمی فوجیوں کے علاج معالجے فوجی گاڑیاں اور دوسرا سازو سامان بدلنے اور دوسرے اخراجات اس میں شامل کریں تو یہ رقم 10 کھرب ڈالر سے زیادہ بن جاتی ہے۔ صرف عراق کی جنگ کے ساڑھے آٹھ سال کے دوران اس پر 3000 ڈالر فی سیکنڈ خرچ اُٹھتا تھا ، اور صدر اوبامہ نے جو اعلان کیا ہے کہ سال کے آخر تک تمام فوجیں وہاں سے نکل آ ئیں گی۔ تو رواں فوجی خرچ میں تھوڑی سی کمی آئے گی۔ لیکن بجٹ میں جتنے فرق کی امید لگائی جا رہی ہے اُتنا نہیں ہوگا۔
اخبار کہتا ہے کہ جنگی اخراجات کے علاوہ اس انسانی پہلو کو بھی ملحوظ رکھنا چاہئے کہ عراق میں 4400 امریکی فوجی ہلاک ہوئے جب کہ 32 ہزار سے زیادہ فوجی زخمی ہوئے۔ ایک برطانوی طبّی جریدے کے مطابق جنگ میں ہلاک ہونے والے عراقی شہریوں کی تعداد کا اندازہ ساڑھے چھ لاکھ سے زیادہ ہے۔
اس طرح علاج معالجے پر اُٹھنے والے خرچ اور معذور ہو جانے والے فوجیوں کے معاوضے کی رقم ملا کر عراق کی جنگ پر اُٹھنے والا خرچ اس سے بھی زیادہ ہو جائے گا۔ اور جب اس میں جنگی گاڑیوں اور دوسرا سامان حرب بدلنے پر آنے والی لاگت کو شامل کیا جائے، تو کولمبیا یونیورسٹی کے ماہر معاشیات جوزیف سٹِگ لِٹز کے تخمینے کے مطابق اس جنگ پر مجموعی طور پر 60 کھرب ڈالر تک جا سکتی ہے۔
اخبار نے جنگ کے ایک اور پہلو کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا ہے کہ ایک طرف اس کی تیاریاں ہو رہی تھیں تو دوسری طرف کانگریس نے پہلے سنہ 2001 میں اور پھر سنہ 2003 میں دوبارہ ٹیکسوں میں چھوٹ دے دی۔ یعنی ایک طرح سے ان جنگوں پر اُٹھنے والا خرچ قرض لے کر پورا کیا، اور صدر جارج بُش کے عہدہ چھوڑتے وقت یہ قرضہ 106 کھرب ڈالر کی حد تک پہنچ چکا تھا۔
اخبار نے ایک اور دلچسپ پہلو کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا ہے کہ نیو یارک ورلڈ ٹریڈ سنٹر کو تباہ کرنے اور پینٹگاں کو نُقصان پہنچانے پر القاعدہ کا کُل خرچ پانچ لاکھ ڈالر تھا۔